1997 میں میری شادی ہوئی، شادی سے کچھ ماہ پہلے میرے والدین نے اپنا مملوکہ مکان 3 لاکھ میں بیچ دیا، وہ رقم انہوں نے اپنی ضروریات میں استعمال کی اور کچھ رقم میری شادی میں بھی لگی، میرے علم میں بھی نہیں ہے کہ اس گھر کے کتنے پیسے شادی میں خرچ ہوئے تھے، اب دونوں کا انتقال ہوچکاہے، میرے بہنوئی کہہ رہے ہیں کہ جو مکان تمہارے والدین نے بیچا تھا، وہ ان کی وراثت میں تقسیم ہونا تھا، اس کو بیچنا صحیح نہیں تھا، اس کی رقم کا استعمال درست نہیں تھا، والدین کو اس کا گناہ ملتا رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ والدین کا اپنا ذاتی مکان بیچ کر کسی بھی مصرف میں اپنی مرضی سے خرچ کرنا، تو کیا یہ وراثت میں خیانت تصور ہوئی اور وہ گناہ کے مرتکب ہوئے؟
واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف کرنے سے منع کرے، لہذا صورتِ مسئولہ میں والدین کا اپنا مکان اپنی زندگی میں فروخت کرنا اور اس کی رقم سے بیٹی کی شادی کرنا صحیح ہے، یہ مالِ میراث کو خرچ کرنے کے حکم میں نہیں ہے، بلکہ میراث کا تعلق تو موت کے بعد ہوتا ہے، زندگی میں اپنا مال میراث شمار نہیں ہوتا۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ والدین کا یہ مکان فروخت کرنا کوئی خلافِ شرع کام نہیں تھا اور اس کی رقم سے بیٹی کی شادی کرانا بھی درست تھا؛ اس لیے والدین گناہ گار نہیں ہیں۔
درر الحکام میں ہے:
"لا يمنع أحد من التصرف في ملكه الخالص،والملك المقصود هنا هو أعم من ملك الرقبة وملك المنفعة فيدخل في ذلك العقارات الموقوفة للسكنى أو للاستغلال".
(المادۃ:1197، ج:3، ص:210، ط: دار الجیل)
و فیہ ایضاً:
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."
(المادۃ : 1192 ، ج : 3 ، ص : 201 ، ط : دار الجیل)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."
(کتاب الفرائض،ج:6،ص:758، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602102415
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن