بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1446ھ 28 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مچھلیوں کے حلال ہونے کے لیے ذبح اور تسمیہ ضروری نہیں


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل مارکیٹوں میں جو مچھلیاں بک رہی ہیں وہ عموما کئی دنوں پرانی اور مردار حالت میں بغیر بسم اللہ پڑھے فروخت کی جارہی ہیں، ایسی مچھلیوں کا کھانا حلال ہے یا حرام؟ چونکہ قرآنِ مجید کے مختلف سورتوں میں باری تعالی نے مردار اور بغیر بسم اللہ کے ذبح شدہ  جانوروں کو حرام قرار دیا ہے، کیا اس طرح کی مچھلیاں بھی مردار کے زمرے میں آئیگی جس کو کھانے سے قرآن مجید میں منع کیا گیا ہے؟

جواب

  مچھلی کے حلال ہونے کے لیے اس کو ذبح کرنا اور اس پر بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں ، کیوں کہ رسول اللہ ﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’ہمارے لیے دومردار  اور دو خون حلال کیے گیے ہیں، دومردار  سے مراد مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون سے مراد جگر اور تلی ہیں‘‘نیز ذبح کرنے کی شرط دمِ مسفوح نکالنے کے لیے ہے جب کہ مچھلی میں خشکی کی جانوروں کی طرح دمِ مسفوح نہیں ہوتا، اس کے بدن کا اصلی مادہ پانی ہے اور پانی بالطبع پاک ہے، اس لیے اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ۔
لہذا  جو مچھلی سمندروں سے پکڑ کر مارکیٹوں میں بیچی جارہی ہے اگر وہ گلی سڑھی ہوئی نہ ہو تو اس کا بیچنا اور کھانا جائز ہے، بلاوجہ شکوک و شبہات اور تردد کے شکار ہونے کی ضرورت نہیں  ،  اور یہ حرام مردار جس کے کھانےسے قرآن میں منع کیا گیا ہے اس کے زمرے میں نہیں ہے۔باقی تازہ باسی الگ مسئلہ ہے۔ 

مسند الامام احمد بن حنبل میں ہے:

"عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌أحلت ‌لنا ‌ميتتان، ودمان. فأما الميتتان: فالحوت والجراد، وأما الدمان: فالكبد والطحال."

(مسند المكثرين من الصحابة، ج:10، ص:16، ط:مؤسسة الرسالة)

زاد المعاد میں ہے:

"فلو لم تكن هذه النصوص مع المبيحين لكان القياس الصحيح معهم، فإن الميتة إنما حرمت لاحتقان الرطوبات والفضلات والدم الخبيث فيها، والذكاة لما كانت تزيل ذلك الدم والفضلات كانت سبب الحل، وإلا فالموت لا يقتضي التحريم فإنه حاصل بالذكاة كما يحصل بغيرها، فإذا لم يكن في الحيوان دم وفضلات تزيلها الذكاة لم يحرم بالموت ولم يشترط لحله ذكاة كالجراد، ولهذا لا ينجس بالموت ما لا نفس له سائلة كالذباب والنحلة ونحوهما، والسمك من هذا الضرب، فإنه لو كان له دم وفضلات تحتقن بموته لم يحل بموته بغير ذكاة، ولم يكن فرق بين موته في الماء وموته خارجه، إذ من المعلوم أن موته في البر لا يذهب تلك الفضلات التي تحرمه عند المحرمين إذا مات في البحر. ولو لم يكن في المسألة نصوص لكان هذا القياس كافيا. والله أعلم."

(فصل في هديه في الغزوات والجهاد، جواز أكل ميتة البحر، ج:3، ص:477، ط:دار ابن حزم)

فتاوی شامی   میں ہے:

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة۔۔۔۔۔۔(غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه وهو ما بطنه من فوق، فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل كما يؤكل ما في بطن الطافي، وما مات بحر الماء أو برده وبربطه فيه أو إلقاء شيء فموته بآفة وهبانية ."

(كتاب الذبائح، ج:6، ص:307، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"واللحم إذا أنتن يحرم أكله."

 

(كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الاكل وما يتصل به، ج:5، ص:339، ط:دار الفكر)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’مچھلی دوسرے جانوروں کی طرح نہیں ہے، اس میں دم مسفوح نہیں ہے، اس کے بدن کا اصلی مادہ پانی ہے اور پانی بالطبع پاک ہے؛ لہذا مچھلی کی روح جدا ہوجانے سے اس پر ناپاک ہونے کا حکم نہیں لگے گا، اس لیے ذبح کرنا ضروری نہیں ہے‘‘۔

(کتاب الذبائح، ج:10، ص:73، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144608100300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں