کیا مدرسے کے احاطے میں قبر بنانا جائز ہے؟
واضح رہے کہ جب کوئی جگہ وقف کی جاتی ہے تو وقف درست اور صحیح ہونے کی صورت میں موقوفہ چیز قیامت تک واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے اور واقف نے جس مقصد اور جہت کےلیے وقف کیا ہو، اسی مقصداور جہت میں اسے استعمال کرنا ضروری ہے، کسی کو بھی کسی قسم کےر د و بدل کی اجازت نہیں اور چوں کہ مدارس کی جگہ عمومًا وقف ہوتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو جگہ مدرسہ کے لیے وقف ہو اس میں کسی کی بھی قبر بنانا شرعًا جائز نہیں، اگر کسی کی قبر بنادی ہے تو ایسی صورت میں اس کو وہاں سے نکال کر کسی عام قبرستان میں منتقل یا قبر کی زمین کو برابر کردیا جائے؛ تاکہ واقف کا مقصد فوت نہ ہو۔
لیکن اگر واقف نے وقف کرتے وقت ابتدا ہی کوئی جگہ قبرستان یا اہل مدراس کی تدفین کے لیے مختص کردی ہو یا مہتمم کو اختیار دیا ہو اور مہتمم مدرسہ کی زمین میں سے کسی جگہ کو قبرستان کے لیے خاص کردے تو ایسی صورت میں وہاں پر قبر بنانے کی اجازت ہوگی۔
نيزاگر مدرسہ کی زمین وقف نہ ہو،بل کہ مملوکہ ہو،چاہے کسی کی ذاتی ہو یا سرکاری ہو، اجازت کےساتھ اس میں قبر بنانے کی اجازت ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم و الدلالة و وجوب العمل به".
(كتاب الوقف، ج:4، ص:433، ط: سعيد)
وفيه أيضاً:
"و لايدفن صغير و لا كبير في البيت الذي مات فيه فإن ذلك خاص بالأنبياء، بل ينقل إلى مقابر المسلمين اهـ و مقتضاه أنه لايدفن في مدفن خاص كما يفعله من يبني مدرسة و نحوها، و يبني له بقربها مدفنًا، تأمل".
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:235، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و لايجوز تغيير الوقف عن هيئته فلايجعل الدار بستانًا و لا الخان حمامًا و لا الرباط دكانًا، إلا إذا جعل الواقف إلى الناظر ما يرى فيه مصلحة الوقف، كذا في السراج الوهاج".
(كتاب الوقف، الباب الرابع عشر في المتفرقات، ج:2، ص:490، ط: دار الفكر)
درر الحکام شرح غرر الأحکام میں ہے:
"(و إذا لزم) الوقف (و تم لايملك) أي لايكون مملوكًا لصاحبه (و لايملك) أي لايقبل التمليك لغيره بالبيع و نحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه (و لايعار و لايرهن) لاقتضائهما الملك."
(كتاب الوقف، ج:2، ص:134، ط: دار إحياء الكتب العربية)
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال رحمه الله: (و لايخرج من القبر) يعني لا يخرج الميت من القبر بعد ما أهيل عليه التراب للنهي الوارد عن نبشه. قال رحمه الله: (إلا أن تكون الأرض مغصوبة) فيخرج لحق صاحبها إن شاء، و إن شاء سواه مع الأرض و انتفع به زراعة أو غيرها".
(كتاب الصلاة، باب الجنائز، كيفية صلاة الجنازة، ج:1، ص:246، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144606100838
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن