مجھے نانا نے مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کے لیے زمین دی ہے اور الحمد لله ہم نے اس پر کام کا آغاز بھی کیا ہے، ا سی طرح میرے ایک ساتھی کو بھی اُس کے نانا نے زمین دی ہے، اس کے نانا نے زمین دیتے وقت اسے یہ کہا تھا کہ :"اس جگہ پر مدرسہ بنا لینا " اور جگہ بھی متعین کی ہے۔
مگر کچھ مسائل کی بناء پر وہ ساتھی اُس زمین پر کام کرنے سے قاصر ہے، اور ان کی خواہش ہے کہ اس زمین کو فروخت کر کے حاصل شدہ رقم اس دوسری مسجد و مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں صرف کر دیں۔
تو کیا اس موقوفہ زمین کو فروخت کر کے حاصل شده رقم اس دوسری مسجد و مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں لگانا جائز ہوگا ؟
نیز اس مسئلہ کی جواز کے لیے شرعاً کوئی حیلہ ہو تو اس کی بھی وضاحت فرما دیجئے ۔
تفصیلی و تسلی بخش و جواب عنایت فرماکر ممنون و مشکور فرما دیجئے۔
صورت مسئولہ میں سائل کے دوست کے نانا نے جو متعینہ زمین مدرسہ کے لیے اسے دی تھی، وہ مدرسہ کے لیے شرعاً وقف ہوچکی ہے، لہذا اس جگہ مدرسہ ہی بنانا شرعا ضروری ہے، اگراس کے پاس مدرسہ تعمیر کرنے کے لیے رقم نہ ہو، تو عوامی چندہ سے تعمیرات کروا لی جائیں، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو، تو نانا کو زمین واپس کردے، تاکہ نانا مذکورہ زمین کسی ایسے شخص کے سپرد کر دیں، جو مدرسہ کی تعمیر کرواسکے۔
سائل کا دوست مذکورہ جگہ فروخت کرکے حاصل شدہ رقم کسی اور مدرسہ کی تعمیر میں صرف کرنے کا شرعاً مجاز نہیں، اور ایسا کرنے کا کوئی حیلہ بھی نہیں۔
الاختيار لتعليل المختار میں ہے:
"ثم عند محمد لصحة الوقف أربعة شرائط: التسليم إلى المتولي، وأن يكون مفرزا، وألا يشترط لنفسه شيئا من منافع الوقف، وأن يكون مؤبدا بأن يجعل آخره للفقراء. لما روي عن عمر وابن عباس ومعاذ - رضي الله عنهم - أنهم قالوا: لا تجوز الصدقة إلا محوزة مقبوضة، ولأن التمليك حقيقة من الله لا يتصور لأنه مالك الأشياء، وإنما يثبت ذلك ضمنا للتسليم إلى العبد كالزكاة، ولأنه متى كان له شيء من منافع الوقف لم يخلص لله - تعالى -.
وقال أبو يوسف: شيء من ذلك ليس بشرط لأنه إسقاط وصار كالإعتاق، وأخذ مشايخ خراسان بقول أبي يوسف ترغيبا للناس في الوقف. قال الخصاف: ذكر الوقف ذكر التأبيد عند أبي يوسف. وعند محمد لا بد من ذكره. قال القاضي أبو عاصم: قول أبي يوسف أقوى لمقاربة بين الوقف والملك إذ في كل واحد منهما معنى التمليك، وقول محمد أقرب إلى موافقة الآثار، وبه أخذ مشايخ بخارى."
(كتاب الوقف، ٣ / ٤١ - ٤٢، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
"مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة ... أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."
(كتاب الوقف، ٤ / ٤٤٥، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية."
(كتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع، ٢ / ٣٦٢، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100559
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن