بندہ ایک مدرسے میں مدرس ہے، قربانی کے موقع پر قربانی کرنے والے حضرات کی طرف سے مدرسے کے لیے کافی مقدار میں گوشت مل جاتا ہے، جس کو پورے سال فریج میں رکھ کر استعمال کرنے سے اس کی خرابی کا اندیشہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے مدرسے کی انتظامیہ نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ جو گوشت قربانی کے موقع پر ملتا ہے اس کو کسی گوشت بیچنے والے کو وزن کے حساب سے دے دیتے ہیں، پھر اسی سے اسی وزن کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر یا مقررہ اوقات میں حصّے مقرر کرکے پورے سال وصول کرتے رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان کا یہ عمل شرعًا درست ہے یا نہیں؟ شریعت کی رو سے اس میں کوئی خرابی تو نہیں ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مدرسہ انتظامیہ اور مذکورہ شخص کے درمیان گوشت کا تبادلہ اگر خرید و فروخت کے طور پر ہوتو چونکہ گوشت اموالِ ربویہ میں سے ہے، جس طرح باہمی تبادلہ کی صورت میں اس میں کمی بیشی کرنا حرام و ناجائز ہے، اسی طرح عوضین میں سے ایک کی ادائیگی کو مؤخر کرنا بھی حرام و ناجائز ہے، لہٰذا اس صورت میں مدرسہ انتظامیہ کا مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہوگا۔
اور اگر ان کے درمیان گوشت کا تبادلہ بطورِ قرض کے ہو یعنی مدرسہ انتظامیہ زائد از ضرورت گوشت مذکورہ شخص کو قرض پر دے دیتے ہیں، تاکہ گوشت خراب ہونے سے بچ جائے اور بوقتِ ضرورت مدرسہ انتظامیہ دیے گئے گوشت کے بدلے اس سے پورے سال گوشت وصول کرتے رہیں، تو تبادلہ کی یہ صورت جائز ہوگی۔البتہ وزن کرنے میں خوب احتیاط کی ضرورت ہوگی، تاکہ کمی بیشی سے بچا جا سکے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"واللحوم معتبرة بأصولها فالبقر والجواميس جنس واحد لا يجوز بيع لحم أحدهما بالآخر متفاضلا والإبل جنس واحد عرابها وبختها وكذلك الغنم جنس واحد ضأنها ومعزها كذا في الذخيرة وفي الفتاوى العتابية اللحم النيء بالمطبوخ يجوز سواء عند أصحابنا - رحمهم الله تعالى - ويحرم التفاضل إلا أن يكون في المطبوخ شيء من التوابل كذا في التتارخانية لحم الإبل والبقر والغنم وألبانها أجناس مختلفة يجوز بيع البعض بالبعض متفاضلا يدا بيد ولا خير فيه نسيئة وكذا الألية واللحم وشحم البطن أجناس مختلفة يجوز بيع البعض بالبعض متفاضلا يدا بيد ولا خير فيه نسيئة كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب البيوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز ، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه، ج:3، ص:120، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا فصح استقراض جوز وبيض) وكاغد عددا (ولحم) وزنا وخبز وزنا وعددا."
(باب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض، ج:5، ص:162، ايج ايم سعيد)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ويجوز استقراض اللحم وهو الأصح كذا في محيط السرخسي. واستقراض اللحم وزنا يجوز كذا في الصغرى."
(كتاب البيوع، الباب التاسع عشر، ج:3، ص:202، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606102034
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن