اگر کسی آدمی کو دوسرا آدمی زکوٰة کے پیسے مدرسے کے لئے دے، اور لینے والا خود صاحب نصاب ہو، وہ ان پیسوں کو اپنے بالغ بیٹوں میں سے کسی ایک کو جو صاحب نصاب نہ ہو، اس کو دے دے، اور وہ قبول کرکے واپس مدرسے کو دے دے،کیا ان پیسوں کا مدرسے میں استعمال کرنا صحیح ہے؟اور اس دوسرے آدمی کی زکوٰة ادا ہوجائے گی یا نہیں؟
جس آدمی کو زکوۃ کی ادائیگی کا وکیل بنایا جائے،وہ زکوٰة دینے والے کا وکیل ہوتا ہے،اور موکل کی ہدایت کے مطابق متعین کردہ مصرف زکوٰة میں صرف کرنا اس پر لازم ہوتا ہے، اورمؤکل کی ہدایت کے خلاف اپنی مرضی سے زکوٰة کی رقم کسی اور مصرف میں صرف کرنے کی اسے اجازت نہیں ہوتی؛لہٰذا صورت مسئولہ میں زکوٰة کی رقم مدرسہ کے مستحق طلبہ میں تقسیم کرنا مذکورہ شخص پر لازم ہے، اپنے مستحق بالغ بیٹے کو دے کر، واپس لینے کی اجازت نہیں ہوگی، البتہ اگر طلبہ پر تعلیم و رہائش فراہم کرنے پر اگر فیس مقرر کر دی جائے، اور مستحق طلبہ کو زکوٰة کی رقم کا مالک بنا کر ان سے فیس وصول کر لی جائے، تو اس صورت میں فیس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم مدرسہ کے جملہ اخراجات میں صرف کرنا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.
وفي الرد: (قوله: لولده الفقير) وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين إذ لو خالف ففيه قولان... وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره."
(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 269، ط: سعید)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100893
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن