بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے لیے چندہ جمع کرنے والے کو چندہ میں فیصد کے اعتبار سے کمیشن دینے کا حکم


سوال

تمہیدی بات سوال سے قبل ضروری ہے، میں نے مدرسے کے مهتمم صاحب کو ایک لاکھ روپے دیے اور مدرسے کے مهتمم  نے کسی دوسرے شخص کو میرے ایک لاکھ روپے دے دیے بطور مضاربت ، اور  مدرسے کے مهتمم  صاحب نے میرے ایک لاکھ روپے کی ذمے داری لی تھی اور کہا تھا کہ اگر تمہارے پیسے کسی وجہ سے ڈوب  گئے،  مثلاً وہ دوسرا شخص ( جس کو میرے ایک لاکھ روپے مهتمم نے دیے تھے) مرگیا وغیرہ ، تو میں ( مدرسے کے مهتمم) تمہیں تمہارے ایک لاکھ روپے دوں گا، اب وہی شخص جس کو  پیسے دیے تھے مهتمم  صاحب نے، وہ لے کر بھاگ گیا، اب آگے بات یہ ہے کہ میرا معاملہ مدرسے کے مهتمم  صاحب سے "سفارت"  کا تھا اور میں کمیشن ( آدھے آدھے )پر چندہ کرتا تھا، جو کہ (کمیشن پر چندہ کرنا ) ناجائز ہے ، اور جیسے ہی   مجھے علم ہوا کہ مهتمم صاحب نے جس دوسرے شخص کو بطور مضاربت میرے ایک لاکھ روپے دیے تھے ،وہ بھاگ گیا، تو اسی وقت میں مدرسے گیا اور میں نے مدرسے کے مهتمم صاحب سے کہا  کہ جب تک آپ مجھے میرے ایک لاکھ روپے نہیں دیں گے، میں کمیشن پر چندہ نہیں کروں گا،  مجھے روزانہ کے "500 " روپے میری اجرت سفارت چاہیے، مدرسے کے مهتمم صاحب کا کہنا تھا کہ کمیشن پر ہی چندہ کرو ( آدھے آدھے) پر اور میرا کہنا تھا کہ نہیں، میں تو اجرت پر ہی چندہ کروں گا، تو جو میں نے بطور اجرت سفارت"500" روپے ليے،کیا وہ جائز ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ مدرسہ کے سفیر کو  ،یا مدرسہ کے لیے چندہ جمع کرنے والےکو ،اسی چندہ کی رقم سے کمیشن دینا یا  چندہ کی رقم میں اس کی محنت کے بدلے ، اس سے فیصد کے اعتبار سے اجرت طے کرنا ، مثلاً : تم جتنا چندہ جمع کرو گے ،اس میں آدھا تمھار اہوگا ( جیسا کہ صورتِ مسئولہ میں سائل اور مدرسے کے مہتمم کے درمیان معاہدہ تھا) ،یہ بہر صورت ناجائز ہے،اور جتنی چندہ کی رقم جمع ہو،وہ پوری ادارے میں جمع کرانا ضروری ہے؛لہذا  چندہ جمع کرنے والے کے لیے اگر پہلے سے کسی قسم کی تنخواہ مقرر نہیں ہے،تو اسے چندہ کرنے کے واسطے ایک معلوم اجرت  پر مقرر کیا جاسکتا ہے،یا اگر پہلے سے تنخواہ مقرر ہے،تو چندہ کرنے والے ایام میں ڈبل تنخواہ دی جاسکتی ہے،نیز  یہ تنخواہ ،تنخواہ کے مصرف سے ہی ادا کی جائے،نہ کہ   زکات  وغیرہ  سے۔

تاہم    صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اور مدرسے کے مہتمم کے درمیان بعد میں سائل کے واسطے روزانہ کی 500 روپے اجرت طے ہوگئی تھی،تو سائل کے لیے بطورِ اجرت یہ رقم لینا جائز ہے،لیکن اگر یہ اجرت باہمی رضامندی سے طے نہیں ہوئی تھی،تو اس صورت میں سائل اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا اور اجرتِ مثل کا (500) روپے ہونا یقینی نہیں ہے،ہاں اگروہاں کے عرف  میں اتنا کام کرنے والے کسی اور شخص کو مثلاً 500 روپے اجرت دی جاتی ہے،تو ایسی صورت میں سائل کے لیے بھی  اجرتِ مثل کے طور پر 500 روپے لینا درست ہے،وگرنہ  اتنا کام کرنے والے کو وہاں کے عرف میں جتنی اجرت دی جاتی ہے،اسی حساب سے اس سفیر کو بھی اتنی ہی اجرت ملے گی، اگر طے کرنے میں باہم اختلاف ہو تو کسی ثالث کی مدد لی جاسکتی ہے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ  مضاربت میں مال، مضارب کے پاس بطورِ امانت ہوتا ہے، اور مضارب کااصل مال کی ضمانت لینا درست نہیں ہے، لہذا مذکورہ صورت میں مضارب(مهتمم) کا مضاربت کے پیسوں کی ضمانت لینا  اور اسی بناء پر  اب سائل کا مذکورہ پیسوں کا مطالبہ  کرنا  درست نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ مال جو  مضارب(مهتمم ) کے پاس تھا،اس کی حیثیت   امانت کی تھی اور امانت جب بغیر تعدی کے ہلاک ہوجائے توا س پر ضمان نہیں آتا،لہذا صورتِ مذکورہ میں چوں کہ   یہ مال مضارب(مهتمم)  کی  تعدی کے بغیر ہلاک ہوگیا ہے، تو اس کا ضمان مضارب(مهتمم)  پر نہیں آئے گا،اور اگر مہتمم مضارب نہ تھے بلکہ مسائل کی رہنمائی کرتے ہوں کسی مضارب کو دیگر مسائل کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کروادیا تب بھی ان کا ضامن بننا درست نہ تھا،اور مضارب  سے نقصان ہونے پر مہتمم اس کا ضمان نہیں لیا جاسکتا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الفاسد) من العقود (ما كان مشروعاً بأصله دون وصفه، والباطل ما ليس مشروعاً أصلاً) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل الإستعمال) لو المسمى معلوماً، ابن كمال."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:45، ط:دار الفكر۔بيروت) 

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثورًا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان".

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج:6، ص:56، ط:سعید)

وفيه أيضاً:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين(وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن)."

(كتاب المضاربت ،فصل في المتفرقات ،ج:5، ص:656، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"وإن سرقت الوديعة عند المودع ولم يسرق معها مال آخر للمودع لم يضمن عندنا، كذا في الكافي."

(کتاب الودیعة ،الباب الرابع فيما يكون تضييعا للوديعة وما لا يكون، ج:4، ص:346، ط:رشیدیة)

وفيه أيضاً:

"ومنها: أن تكون الأجرة معلومةً. ومنها: أن لاتكون الأجرة منفعةً هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة".

(کتاب الإجارة، الباب الأول: تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:411، ط:رشیدیة)

 فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144503101801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں