زید بنات کے ایک مدرسہ کا مہتمم ہے، جس مدرسہ میں حفظ و ناظرہ اور اردو ترجمہ وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں، مدرسہ غیررہائشی ہے۔زید کے والد عمر اپنے بیٹے زید کو زکات کی ادائیگی کا وکیل بناتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ:کیا زید ان پیسوں کو مدرسہ کی بچیوں اور مدرسہ کے دیگر ضروری سامان وغیرہ خریدنے میں خرچ کرسکتا ہے؟اگر یہ زید ان بچیوں کی طرف سے بھی زکات وصول کرنے کا وکیل ہو؟ جیسے عام مدارس میں ہوتا ہے؟ اگر خرچ کرسکتا ہے تو مدرسہ کی کن کن ضروریات میں خرچ کرسکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں زید کا اپنے والد کی طرف سے زکاۃ کی ادائیگی کا وکیل بننا شرعاً درست ہے، اس سے زید کے والد کی زکاۃ ادا ہوجائے گی، البتہ اس زکاۃ کی رقم کو مدرسہ کی طالبات اور مدرسہ کے دیگر ضروری سامان وغیرہ خریدنے کے لیے مذکورہ طریقہ سے خرچ کرنا تملیک نہ پائی جانے کی وجہ سے شرعاً درست نہیں ہے، بلکہ زکوۃ کی ادائیگی کی صحیح صورت یہ ہوگی کہ زید مدرسہ کے طالبات کی ماہانہ فیس مقرر کرلے، پھر جو طالبات یا ان کے سرپرست فیس دے سکتے ہیں، ان سے فیس وصول کرے، اور جو طالبات یا ان کے سرپرست فیس دینے کے قابل نہیں ہیں اور ساتھ ساتھ زکوۃ کے مستحق بھی ہیں، تو ان طالبات کو زکاۃ کی رقم مالک بناکر دے دے؛ تاکہ وہ ماہانہ فیس ادا کردیں،پھر زید کے لیے اس رقم کامدرسہ اور مدرسے کی تمام ضروریات میں صرف کرنا شرعاً جائز ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء.
(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض، ووقع زكاة عن الدافع."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه."
(كتاب الزكاة، الباب السابع، ج:1، ص:188، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وحيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه، ولو امتنع المديون مد يده وأخذها لكونه ظفر بجنس حقه، فإن مانعه رفعه للقاضي.
(قوله: فإن مانعه إلخ) و الحيلة إذا خاف ذلك ما في الأشباه، وهو أن يوكل المديون خادم الدائن بقبض الزكاة ثم بقضاء دينه، فبقبض الوكيل صار ملكا للموكل."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:271، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606100600
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن