بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے ڈرائیور کا چھٹیوں کے ایام کی تنخواہ کا حکم


سوال

ہمارے ہاں مدرسہ بنات کے لیے ایک ڈرائیور ہے ، جو صبح طالبات کو مدرسہ لے آتا ہے اور ظہر کے وقت واپس اپنے گھروں کو پہنچاتا ہے ، تو کیا ایسے ڈرائیور کے لیے سالانہ چھٹیوں کا تنخواہ لینے کا مطالبہ کرنا اور لینا از روئے شریعت جائز ہے یا نہیں ؟ واضح رہے کہ مذکورہ ڈرائیور صرف صبح طالبات کو لانے اور ظہر کے وقت واپس لے جانے کا پابند ہے اس کے علاوہ اس پر کوئی پابندی نہیں ہے اگر پورا دن کسی دوسری ڈیوٹی میں مصروف رہنا چاہیے تو رہ سکتا ہے ، مدرسے کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ ڈرائیور  حسب معاہدہ اپنی اجرت کا مستحق ہے،لہذااگر عقد ملازمت کے وقت تعطیلات کی اجرت سے متعلق کوئی ضابطہ طے نہیں پایا تھا اور مذکورہ ڈرائیور سالانہ یا ماہانہ اجرت پر ادارے کے لیے کام کرتا ہے تو عرف کے مطابق تعطیلات کے ایام کی اجرت کا وہ مستحق ہے،باقی اگر تعطیلات کے  ایام سے متعلق معاہدہ کے وقت کوئی ضابطہ طے پایا تھا تو اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا۔

الدر المختار  وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى."

(کتاب الاجارہ،باب ضمان الاجیر،ج6،ص69،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم البطالة……… إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. اهـ. ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا."

(کتاب الوقف،ج،4،ص،372،ط؛ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں