بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مدينہ کی گلیوں میں خدا دکھتا ہے


سوال

حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار مدینہ کی گلیوں میں صدا لگا رہے تھے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ جب حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو انہیں پکڑ کرحضوررسالت مآبؐ کی بارگاہ میں لے گئے اور عرض کرنے لگے کہ یارسول یارسول یارسول اللہؐ ابوہریرہؓ دیوانہ ہو گیا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ اے عمرؓ ،ابوہریرہؓ کیا کہتا ہے؟ حضرت عمرؓ عرض کرنے لگے کہ ابوہریرہؓ کہتا ہے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا ”صَدقتَ“ کہ یہ سچ کہتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یارسول اللہ وہ کیسے؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:"إني مِرآة الَرحمٰن، مَن رَآني فَقَد رَائی الحَق"میں رحمان کا آئینہ ہوں، جس نے مجھے دیکھا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو دیکھا۔ تو گويا ان کو دیکھنا اللہ پاک کو دیکھنا  هي هوا۔ (بحوالہ:”تفسیرروح البیان،للعلامة إسماعیل حقي“) اس کی تائید میں اللہ نے قرآن پاک میں یہ آیت نازل فرمائی:

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللّٰهَ يَدُ ٱللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ أَجْرًا عَظِيمًا (الفتح: ١٠)

جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا۔

جواب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا  سوال میں مذکور واقعہ کافی تلاش کے باوجود ذخیرہ احادیث میں نہیں مل سکا۔

"روح البیان"میں بھی یہ واقعہ نہیں مل سکا،  البتہ مذکورہ آیت كے ذیل میں یہ عبارت درج ہے:

"والحاصل: أن الله تعالى جعل نبيه صلّى الله عليه وسلّم مظهرًا لكمالاته ومرءاة لتجلياته، و لذا قال عليه السلام من رآني فقدر أى الحق".

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کمالات کا مظہر اور اپنی تجلیات کا آئینہ داربنایا ہے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"من رآني فقد رأى الحق".

(روح البيان لإسماعيل الحقي،سورة الفتح، 9: 20، دار الفكر)

اور یہ حدیث صحیح سند سے کئی کتب احادیث میں موجود ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالی ( 256ھ) بھی اپنی کتاب میں لائے ہیں:

قال أبو قتادة رضي الله عنه: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "من رآني فقد رأى الحق".

  (صحيح البخاري، کتاب التعبیر، باب من رأى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام، الرقم:6996، 9: 33، دار طوق النجاۃ، ط: الأولى، 1422ھ)

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کو "باب من رأى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام"کے تحت لائے ہیں، اسی طرح تقریبًا تمام  شارحینِ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخواب میں دیکھا، اس نے یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھا،یا سچا خواب دیکھا۔ یعنی اس حدیث میں  "الحق" سے مراد باری تعالیٰ نہیں ہیں، بلکہ "سچ" اور "حقیقت" ہے۔

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:

(فتح الباري لابن حجر،"باب من رأى النبي صلى الله عليه وسلم في المنام"، 12: 386- 389، دار المعرفة، بیروت، 1379ه)

خلاصہ یہ ہے کہ جب تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کےمذکورہ واقعہ  کی کوئی معتبر سند نہ مل جائے تب تک اسے بیان نہیں کرنا  چاہیے، اور  "من رآني فقد رأى الحق"حدیث شریف كي  تشریح وہی  بیان کرنی چاہیے، جو محدثین اور فقہاء سے منقول  ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں