بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی خالی جگہ کرایہ پر دینا


سوال

ہمارے گاؤں میں مدرسہ کے لئے زمین وقف کی گئی ہے،اس زمین کےا ٓدھے حصے میں مدرسہ کا تعمیراتی کام ہوا ہےاور آدھا حصہ خالی ہے،گاؤں میں کوئی ایسی حفاظتی جگہ نہیں ہے کہ جہاں لوگ  اپنی گاڑیاں ،ٹریکٹروغیرہ کھڑے کریں،اس لئے محلہ والے لوگ وہاں ٹریکٹر ،موٹرسائکل  ،کار وغیرہ کھڑی کرلیتے ہیں ،کیا وقف کی زمین سے اس طرح نفع اٹھانا جائز ہے؟یا اگر کوئی اور راستہ ہو اس کا کہ ان سے مناسب کرایہ لیا جائے اور وقف کے مصارف میں اس کو استعمال کیا جائے۔

اسی طرح بسااوقات مدرسہ کے قریب لوگ مدرسہ کی کوئی چھوٹی چیز مثلا بیلچہ ،کلہاڑی ،درانتی کچھ وقت کے لئے عاریتاً لےلیتے ہیں ،ان کے لئے اس طرح کرنا جائز ہے؟

جواب

مدرسہ کے لئے وقف زمین مدرسہ کے مصارف میں ہی استعمال کرنا ضروری ہے ،  مدرسہ کے علاوہ دیگر ضروریات کے لئے اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے،البتہ  اگر واقف نے مدرسہ کی مذکورہ زمین  کو خاص  مدرسہ  میں استعمال کے ساتھ مقید نہ کیا ہو ،بلکہ  متولی کی صوابدید پر چھوڑا ہو تو اس صورت میں متولی کے لئے خالی جگہ  کرایہ پر دینا تاکہ اس حاصل ہونے والے کرایہ سے مدرسہ کی ضرورریات  پوری ہوں،جائز ہوگا،اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ  معروف کرایہ سے کم کرایہ نہ طے کیا جائے، معاہدہ کی مدت ایک سال سے زیادہ نہ ہواور ایسے شخص کو کرایہ پر نہ دی جائے کہ جس سے زمین کےغصب اور ضیاع کا اندیشہ ہو۔

اسی طرح مدرسہ کی مختلف اشیاء مثلا کلہاڑی ،بیلچہ وغیرہ بھی کسی کو عاریتاً دینا درست نہیں ہے۔

   فتاویٰ شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به فيجب عليه خدمة وظيفته أو تركها لمن يعمل، وإلا أثم."

(كتاب الوقف،ج:4،ص:433،ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن).

(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه."

(كتاب الوقف،ج:4،ص:352،ط:سعيد)

الاختيار لتعليل المختارمیں ہے :

"والمتأخرون قالوا: لا يجوز أكثر من سنة لئلا يتخذ ملكا بطول المدة فتندرس سمة الوقفية ويتسم بسمة الملكية لكثرة الظلمة في زماننا وتغلبهم واستحلالهم، وقيل: يجوز في الضياع ثلاث سنين وفي غير الضياع سنة وهو المختار ; لأنه لا يرغب في الضياع أقل من ذلك، ولا تجوز إجارته إلا بأجر المثل دفعا للضرر عن الفقراء، فلو آجره ثلاث سنين بأجرة المثل ثم ازدادت لكثرة الرغبات لا تنقض الإجارة ; لأن المعتبر أجر المثل يوم العقد، وليس للموقوف عليه ‌إجارة ‌الوقف إلا أن يكون وليا من جهة الواقف أو نائبا عن القاضي."

‌‌(كتاب الوقف،ج3،ص47 ،ط: مطبعة الحلبي)

اسعافمیں ہے :

"ولو لم يذكر في صك الوقف إجارته فرأى الناظر إجارته أو دفعه مزارعة مصلحة قال الفقيه أبو جعفر رحمه الله ما كان أدر على الوقف وأنفع للفقراء جاز له فعله إلا أن في الدور لا تؤجر أكثر من سنة لأن المدة إذا طالت تؤدي إلى إبطال الوقف فإن من رآه يتصرف فيها تصرف الملاك على طول الزمان يظنه مالكا."

(باب إجارة الوقف ومزارعته ومسافاته،ص63، طبع بمطبعة هندية بشارع المهدى بالأزبكية بمصر المحمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں