بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں قربانی کا گوشت طلبہ کو قیمتاً کھلانا


سوال

 ہمارے یہاں ایک مدرسہ ہے جس میں ہم طلبہ سے ہر مہینے  کھانا کے لیے روپیہ لیا کرتے ہیں، اور  ہفتہ میں دو روز گوشت کھلا تے ہیں، قربانی کی موسم میں مختلف علاقوں سے قربانی کا گوشت مدرسہ میں آتا ہے، اس گوشت یا اپنے اوپر واجب شدہ قربانی کا گوشت فریز رلوڈ کرکے تین چار مہینے تک طلبه کو کھلاتے ہیں، اس دوران  میں بھی ہر طالب علم سے روپیہ لیا کرتے ہیں، لیکن بدلے میں قربانی کا گوشت کھلاتے ہیں، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

چونکہ لوگ مدرسہ میں قربانی کا گوشت  طلبہ کے لیے بھیجتے ہیں ،اس لیے   طلبہ سےقربانی کے گوشت کی قیمت لیناجائز  نہیں ،لہذا جن دنوں میں مدرسہ میں قربانی کا گوشت بنتا ہے، اس دن کی فیس کو روٹی اور کھانے کے دوسرے اخراجات  مثلاً مصالحہ جات اور پکوائی وغیرہ کے اخراجات کے بقدر وصول کیا جاسکتا ہے۔

ہدایہ میں ہے:

"قال: "ويتصدق بجلدها" لأنه جزء منها "أو يعمل منه آلة تستعمل في البيت" كالنطع والجراب والغربال ونحوها، لأن الانتفاع به غير محرم "ولا بأس بأن يشتري به ما ينتفع بعينه في البيت مع بقائه" استحسانا، وذلك مثل ما ذكرنا لأن للبدل حكم المبدل، "ولا يشتري به ما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه كالخل والأبازير" اعتبارا بالبيع بالدراهم. والمعنى فيه أنه تصرف على قصد التمول، ‌واللحم ‌بمنزلة ‌الجلد في الصحيح، فلو باع الجلد أو اللحم بالدراهم أو بما لا ينتفع به إلا بعد استهلاكه تصدق بثمنه، لأن القربة انتقلت إلى بدله، وقوله عليه الصلاة والسلام: "من باع جلد أضحيته فلا أضحية له" يفيد كراهة البيع".

(کتاب الاضحیۃ،ج:4، ص: 360، ط: دار الاحیاء)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

"متى ذبح لم يجز له البيع ولا الإبدال. وهذا بالنسبة لصاحبها.

وأما الذي أهدي إليه شيء منها، أو تصدق عليه به، فيجوز له البيع والإبدال".

(تحت اللفظ: الأضحية،ج: 5 ، ص: 105، ط : ادارة الأوقاف)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411102681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں