بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مدیون کی چیزوں پرقبضہ کرنے کا حکم


سوال

 دکان کے کرایہ کے بدلے میں دکان دار کی  چیزوں کو غصب کرلیا گیا، کئی سالوں کے بعد بھی ان چیزوں کا مالک نہیں آیا ، ان چیزوں کو فروخت کرنا یا ان چیزوں کو خریدنا کیسا ہے؟اگر ان چیزوں کو خرید لیا گیا ہو تو اس چیز کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں اور اس چیز کا کیا کرے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاًدکاندارکرایہ ادانہیں کررہاتھا توکرایہ کی رقم کےبرابرسامان پرقبضہ کرنااوراس کی خرید وفروخت کرناجائز ہے، اورخریدارکےلیےاس کااستعمال بھی جائزہے، لیکن اس سےزیادہ پرقبضہ کرنااوراس کی خرید وفروخت کرناجائزنہیں ہوگا، اورنہ ہی خریدارکےلیےاس کااستعمال جائز ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس للمجانسة في المالية. قال في المجتبى وهو أوسع فيعمل به عند الضرورة

(قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري ‌أن ‌عدم ‌جواز ‌الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق."

(کتاب السرقة، 95/4، ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"قال الحموي في شرح الكنز نقلا عن العلامة المقدسي عن جده الأشفر عن شرح القدوري للأخصب: ‌إن ‌عدم ‌جواز ‌الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق، والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم."

(كتاب الحجر، 151/6، سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما شرائط النفاذ فنوعان أحدهما الملك أو الولاية والثاني أن لا يكون في المبيع حق لغير البائع فإن كان لا ينفذ كالمرهون والمستأجر كذا في البدائع۔"

(كتاب البيوع ، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:3، ط:دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

"ہم احناف کا اصل مذہب یہ ہے کہ مدیون کے مال سے دین کے علاوہ کسی دوسری جنس میں دین وصول کر لینا جائز نہیں ہے لیکن علامہ حموی نے شرح کنز میں مقدسى عن جده الاشفر عن شرح القدورى للأخصب کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ خلاف جنس قرض وصول کر لینے کا عدم جواز متقدمین کے زمانے میں تھا لیکن آج کل قول مفتی بہ یہ ہے کہ مدیون کا جس قسم کا مال قابو میں آجائے اس میں سے قرضہ وصول کر لیناجائزہے۔"

(کتاب الدیون، 153/8، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں