بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مفقود کو ملنے والی میراث کو امانت رکھا جائے گا


سوال

میں نے آپ کے دار الافتاء سے ایک فتوی لیا ہے، جس میں میراث کے حوالے سے سوال کیا گیا تھا، میں اس کے مطابق ورثاء کوان کا حصہ ادا کر چکا ہوں ، جب کہ مرحوم کی دوسری بیوہ کا حصہ ادا کرنا ہےجو کہ میرے پاس بطورِ امانت رکھا ہوا ہے، بیوہ مفقود ہ ہے یعنی اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ وہ کہاں ہے، جن  لوگوں کو معلوم ہے وہ میرے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں،  بیوہ کے حصہ کو میں اپنے پاس مزید امانت نہیں رکھ سکتا، اب میں اس کا کیا کروں؟شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

واضح رہے کہ سائل ورثاء میں شامل نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مفقودہ بیوہ کو اپنے شوہر سے ملنے والے حصے کو موقوف رکھا جائے گا اور اس کو  ورثاء کے پاس امانت کے طور پر رکھا جائے گا، اگر آگئی تو اپنے حصے پر قابض ہوجائے گی، اگر نہیں آئی تو اس کی عمر جب ساٹھ سال ہوجائے اس وقت عدالت سے اس کی موت کا تصدیق نامہ حاصل کرنے کے بعد  اس کے حصہ کو ان ورثاء کی طرف لوٹایا جائے گا جوبیوہ کے شوہر کے انتقال کے وقت اس کے ساتھ وارث بنے تھے، چوں کہ سائل مرحوم کے ورثاء میں شامل نہیں ہےاور سائل امانت کو اپنے پاس مزید نہیں رکھنا چاہتا ،  لہذاسائل کو چاہیےکہ  بیوہ کے حصہ کو مرحوم شوہر کے کسی وارث کے پاس امانت رکھوا دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيل يقدر بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين، واختار المتأخرون ستين سنة واختار ابن الهمام سبعين لقوله عليه الصلاة والسلام «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا."

(کتاب المفقود، ج:4، ص:296، ط:دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده، ومعنى قولنا " لا يرث المفقود أحدا " أن نصيب المفقود من الميراث لا يصير ملكا للمفقود، أما نصيب المفقود من الإرث فيتوقف، فإن ظهر حيا علم أنه كان مستحقا، وإن لم يظهر حيا حتى بلغ تسعين سنة فما وقف له يرد على ورثة صاحب المال يوم مات صاحب المال، كذا في الكافي. وإذا أوصى له توقف الموصى به إلى أن يحكم بموته فإذا حكم بموته يرد المال الموصى به إلى ورثة الموصي، كذا في التبيين."

(کتاب المفقود، ج:2، ص:300، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100038

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں