بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مفقود الخبر بیٹے کو والد کی میراث میں ملنے والے حصے کا حکم


سوال

ایک شخص کے تین بیٹےا ور تین بیٹیاں تھیں، اس شخص کی زمین ہے، ان اولاد میں سے ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کا انتقال ہوچکا ہے، اور ایک بیٹا 45 سال سے لاپتہ ہے، ایک بیٹاا ور ایک بیٹی زندہ ہے، اس زمین کی تقسیم میں فوت شدہ بیٹیوں اور بیٹے کی اولاداپنے والد اور والدہ کا حصہ لے رہی ہے،اور زندہ بیٹی اور بیٹے اپنا حصہ لے رہے ہیں،جب کہ زندہ بیٹا لاپتہ بیٹے کا حصہ بھی لے رہا ہے، اس بیٹے کا لاپتہ بیٹے کا حصہ لینا شرعاً کیسا ہے؟

وضاحت:

گم شدہ بیٹے کی گمشدگی کے وقت اس کے والد زندہ تھے،گم شدگی کے وقت اس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔

جواب

واضح رہےکہ جو شخص  لا پتہ ہو چکا ہو، اوراس کی زندگی اور موت کے بارے میں کوئی معلومات نہ ہوں ،وہ”مفقود الخبر“  کہلاتا ہے،تو ایسے آدمی  کو اپنی ذات کے حق میں زندہ تصور کیا جائے گا، یعنی  اس  کی  بیوی کسی سے نکاح نہیں کرسکتی ،اور اس کی میراث ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں ہوگی، البتہ لاپتہ شخص کو میت اس وقت تصور کیا جائے گا جب یہ اپنی پیدائش کے وقت سے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے اس کے بعد متعلقہ عدالت سے  اس کی موت کا سرٹیفکیٹ لے لیا جائے ، بعد ازاں اس مفقود کو   والد مرحوم کے ورثاء میں شمار نہیں کیا جائے گا،بلکہ  مرحوم والد کی وفات کے وقت جو ورثاء  موجود تھے، ان کے درمیان تقسیم کیا جائےگا،  لہٰذاصورتِ مسئولہ میں چوں کہ   مفقود الخبر بیٹےکی عمرپیدائش کےوقت سےلےکرآج تک 60سال سے زائد  ہو چکی ہے،تو کسی متعلقہ عدالت سے اس کی موت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اس لاپتہ بیٹے کو مرحوم والد کے ترکہ میں سے ملنے والا حصہ  والد کی وفات کے وقت جو ورثاء میں موجود تھے، ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، اور مفقود الخبر وارث کے سارے حصے کو ایک بھائی کے لیے لینا درست نہیں،بلکہ  والد کے وفات کے وقت جو ورثاء موجود تھے،تو ان کےدرمیان والد مرحوم کا ترکہ  تقسیم کیا جائے گا، البتہ مفقود شخص کا اپنا ذاتی مال اس کے موجودہ شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وميت في حق غيره فلا يرث من غيره)....(ولا يستحق ما أوصى له إذا مات الموصي بل يوقف قسطه إلى موت أقرانه في بلده على المذهب) لأنه الغالب.

قوله: على المذهب) وقيل ‌يقدر ‌بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين،واختار المتأخرون ستين سنة واختار ابن الهمام سبعين لقوله عليه الصلاة والسلام: أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين، فكانت المنتهى غالبا. وذكر في شرح الوهبانية أنه حكاه في الينابيع عن بعضهم. قال في البحر: والعجب كيف يختارون خلاف ظاهر المذهب مع أنه واجب الاتباع على مقلد أبي حنيفة. وأجاب في النهر بأن التفحص عن موت الأقران غير ممكن أو فيه حرج، فعن هذا اختاروا تقديره بالسن."

(كتاب المفقود، ج: 4، ص: 296، ط: سعید)

فتح القدیر شرح الہدایة   میں ہے:

"قال المصنف (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين)وأرفق منه التقدير بستين. وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم: أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين، فكانت المنتهى غالبا."

(‌‌كتاب المفقود، ج: 6، ص: 149، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607101583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں