بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مفقودہ بیٹی کو اس کے والد کی طرف سے ملنے والے ترکہ کا حکم


سوال

میں ایک بیوہ خاتون ہوں، آسٹریلیا میں رہتی ہوں،  میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میرے شوہر چھ سال پہلے وفات پاگئے ہیں،  میرے شوہر کے پاس ایک گھر تھا، جو کہ انہوں نے میرے نام کر رکھا تھا، میرے بچوں نے تقاضا کیا کہ انہیں اس گھر میں سے حصہ دیا جائے، میں نے وہ فروخت کر دیا ہے ، شریعت کے مطابق میں نے دونوں بیٹوں کو حصہ دیا ۔ میرا اور میری بیٹی کا حصہ میرے پاس ہے۔ میری بیٹی اپنے والد کی زندگی  میں ہی اپنے گھر سے چلی گئی اور سنا ہے کسی سے شادی کر لی ہے، ہم نے اسے تلاش کرنے کی پوری کوشش کی ہے، میں ابھی تک کر رہی ہوں، تمام تر ذرائع استعمال کر لیے ہیں ، اس کے گھر سے گئے ہوئے عرصہ دراز تقریباً  20 سے 25  سال گزر چکے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ  میں بیٹی کے  اس حصے کا کیا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص غائب اور لاپتا ہو جائے، تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا علم نہ ہورہا ہو، ایسے شخص کو شرعی اصطلاح میں ”مفقود“ کہتے ہیں، اور مفقود کو ملنے والی میراث و ترکہ کا حکم یہ ہے کہ اسے مفقود کے ورثاء کے پاس  امانت رکھا جائے گا، اگر وہ آگیا تو اپنا حصہ وصول کرلے گا،اگر نہیں آیا تو اس کی عمر جب ساٹھ سال ہوجائے اس وقت عدالت سے اس کی موت کا تصدیق نامہ  حاصل کرنے کے بعد اس کے حصہ کو ان کے  ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کے حصہ کو اپنے پاس بطورِ امانت محفوظ رکھیں، مفقودہ بیٹی ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے اور اس کے متعلق لاعلمی برقرار رہے، تو عدالت سے ان کی موت  کی تصدیق جاری کرواکر ان کو مرحومہ تصور کرکے ان کے مقررہ حصہ کو ان کے ورثاء کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيل يقدر بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين، واختار المتأخرون ستين سنة واختار ابن الهمام سبعين لقوله عليه الصلاة والسلام «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا."

(کتاب المفقود، ج:4، ص:296، ط:دار الفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"وقد وقع الاختلاف في هذه واختلف الترجيح، فظاهر الرواية وهو المذهب أنه مقدر بموت الأقران في السن؛ لأن من النوادر أن يعيش الإنسان بعد موت أقرانه فلا ينبني الحكم عليه فإذا بقي منهم واحد لا يحكم بموته واختلفوا في المراد بموت أقرانه فقيل من جميع البلاد، وقيل من بلده وهو الأصح، كذا في الذخيرة. واختار المؤلف التقدير بالتسعين بتقديم التاء على السين تبعا لابن الفضل وهو الأرفق كما في الهداية وفي الذخيرة وعليه الفتوى، وعن أبي يوسف تقديره بمائة سنة واختاره أبو بكر بن حامد وفي رواية الحسن عن الإمام بمائة وعشرين سنة واختاره القدوري واختار المتأخرون ‌ستين سنة واختار المحقق ابن الهمام سبعين سنة واختار شمس الأئمة أن لا يقدر بشيء؛ لأنه أليق بطريق النفقة؛ لأن نصب المقادير بالرأي لا تكون وفي الهداية أنه الأقيس وفوضه بعضهم إلى القاضي فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته، قال الشارح وهو المختار."

(کتاب المفقود، ج:5، ص:178، ط: دار الکتاب الإسلامي) 

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144609100972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں