ایک عورت ہے جس کے بچے بھی ہیں، اس کا شوہر کہیں سفر پر نکل جاتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے ، پیچھے سے بیوی دوسری شادی کر لیتی ہے اور اسے بھی اولاد ہوتی ہے، لیکن کچھ سالوں کے بعد وہ پہلا شوہر واپس آجاتا ہے تو اس میں کیا حکم کیا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے پہلے شوہر سے بدستور قائم ہے، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو گیا؛ اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی اختیار کر لے، اور چوں کہ اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی تھی تو دوسرے شوہر پر مہر کی ادائیگی بھی لازم ہوگی ،البتہ پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔
المبسوط للسرخسي میں ہے:
"و أما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت و تزوجت ثم أتى الزوج الأول حيا أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه فإنه كان يقول ترد إلى زوجها الأول ويفرق بينها وبين الآخر و لها المهر بما استحل من فرجها ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، و به نأخذ أيضًا؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة و منكوحة الغير ليست من المحللات بل هي من المحرمات في حق سائر الناس كما قال الله تعالى:{وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ}[النساء 24] فكيف يستقيم تركها مع الثاني؟".
(کتاب المفقود، ج:11، ص:64، ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144301200064
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن