1-کیا مغرب کی نماز کے بعد فرشتے جاتے ہیں اس لیے مغرب جلدی پڑھنے چاہئے۔
2-اور سنت کو فوراً اُسی سے ملاکر پڑھنا چاہئے تاکہ فرشتے سنت کو بھی لے کر جائیں۔
1- احادیث مبارکہ میں فجر اور عصر کا وقت فرشتوں کے آنے جانے کاتذکرہ ملتا ہے مغرب کے وقت کا ذکرنہیں ہے ،لہذا مغرب کی نماز کے بعد فرشتے جاتے نہیں ہیں بلکہ وہ فرشتے جو عصر کے وقت آتے ہیں وہ موجود ہوتے ہیں ،اس لیے مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنے کے لیے سائل نے جو وجہ ذکر کی ہے یہ درست نہیں ، تاہم احادیثِ مبارکہ میں مغرب کی نماز کو سورج کے غروب کا یقین ہوتے ہی جلدی پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے، نبی کریم ﷺ نے بلاعذر ستاروں کی کثرت تک نمازِ مغرب مؤخر کرنے کو اس امت کی خیر سے روگردانی کی علامت بتایا ہے،لہٰذا سورج کے غروب کا یقین ہوتے ہی اذان دے کر اذان کے فوری بعدیا تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت کے بقدر وقفہ دے کر نمازِ مغرب ادا کرلینی چاہیے۔
2- واضح رہے کہ جن فرض نمازوں (ظہر، مغرب اور عشاء) کے بعد سننِ مؤکدہ ہیں، ان فرض نمازوں کے بعد مختصر دعا پر اکتفا کر کے سنن و نوافل میں مشغول ہو جانا چاہیے، فرض نماز کے بعد جو دعائیں یا اذکار احادیث میں وارد ہیں وہ اذکار پڑھے جائیں یا مختصر دعا کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، لمبی دعا مانگنی ہو یا طویل اذکار کرنے ہوں تو سننِ مؤکدہ ادا کرنے کے بعد کریں۔
سائل نے فرشتوں کے سنت ساتھ لے جانے سے متعلق جو بات کی ہےاس کی اصل ایک روایت ہے ذیل میں وہ روایت اور اس کا مطلب ذکر کیا جاتاہے ۔
مغرب کی سنتوں کے جلدی پڑھنے کے بارے میں مروی حدیث ''عجلوا الركعتين بعد المغرب فإنهما ترفعان مع المكتوبة''
ترجمہ: تم لوگ مغرب کے بعد دو رکعت (سنتیں جلدی پڑھ لیا کرو ؛کیوں کہ وہ (دونوں رکعتیں) فرضوں کے ساتھ اوپر (علیین میں) اُٹھائی جاتی ہیں۔
مذکورہ حدیث صاحب مشکاۃ المصابیح نے کتاب الصلاۃ میں ذکر کی ہے ،نیز امام بیہقی نے شعب الایمان میں بھی یہ روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے۔مذکورہ حدیث کے بعض راویوں پر محدثین نے کلام کیاہے تاہم یہ روایت فضائل اعمال میں قابل قبول ہے۔
نیز مذکورہ حدیث کے بارے میں عبد الحق الدہلویؒ " لمعات التنقیح" میں اور صاحب مظاہر حق علامہ قطب الدین دہلوی ؒ فرماتے ہیں
'' مطلب یہ ہے کہ: یہ دونوں رکعتیں چوں کہ فرض نماز کے ساتھ مقام علیین میں پہنچائی جاتی ہیں ؛ اس لیے ان کو فرض نماز کے بعد زیادہ تاخیر کر کے نہ پڑھو ،تاکہ وہ فرشتے جو اعمال کو علیین تک پہنچاتے ہیں منتظر نہ رہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ: ان اوارد واذکار کو جنہیں فرض کے بعد جلدی پڑھنا ثابت ہو چکا ہے ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا اس تعجیل (جو احادیث میں فرض کے فورًا بعد اور اوراد واذکار کے پڑھنے کے سلسلے میں ثابت ہے) کے منافی نہیں ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ: ان اوراد و اذکار کو ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا بعدیت (یعنی حدیث کے اس حکم کہ فرض نماز کے بعد اور اوراد وا ذکار پڑھے جائیں) کے منافی نہیں ہے۔ اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ: پیچھے باب الذکر بعد الصلاةمیں وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے فورًا بعد اوراد و اذکار (جن کی تفصیل ان احادیث میں مذکور ہے) پڑھے جائیں تو اب اگر ان اوراد و اذکار کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کے بجائے اس حدیث کی فضیلت کے پیش نظر دو رکعت سنتوں کے بعد پڑھا جائے تو احادیث سے ثابت شدہ تعجیل و بعدیت (یعنی اوراد و اذکار کو فرض نماز کے فورا بعد پڑھنے کا حکم ) کے خلاف نہیں ہوگا۔''۔[مظاہرحق ،کتاب الصلاۃ ،ج:1، ص:750، ط:دارالاشاعت]
لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:
"وعن حذيفة نحوه وزاد: فكان يقول: "عجلوا الركعتين بعد المغرب فإنهما ترفعان مع المكتوبة" رواهما رزين، وروى البيهقي الزيادة عنه نحوها في "شعب الإيمان". [شعب: 2804] حذيفة) قوله: (عجلوا الركعتين بعد المغرب) والظاهر أنه لا ينافي التعجيل قراءة دعاء أو ذكر صح وروده بعدها، أو يقال: قراءته بعد السنة لا تنافي البعدية المرادة ههنا، وقد أسلفنا مثل هذا في باب الذكر بعد الصلاة."
(باب الإمامة، الفصل الثالث، ج:3، ص:298، ط:: دار النوادر، دمشق)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله لا بأس للإمام) أي والمقتدين (قوله عقب الصلاة) أي صلاة الغداة قال في القنية إمام يعتاد كل غداة مع جماعته قراءة آية الكرسي وآخر البقرة -، و {شهد الله} [آل عمران: 18]- ونحوها جهرا لا بأس به والإخفاء أفضل اهـ. وتقدم في الصلاة أن قراءة آية الكرسي والمعوذات والتسبيحات مستحبة وأنه يكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ."
(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ج:9، ص:698، ط:رشیدیة)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن أبي أيوب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تزال أمتي بخير أو قال: على الفطرة ـ ما لم يؤخروا المغرب إلى أن تشتبك النجوم» . رواه أبو داود
609 - (وعن أبي أيوب) : أي: الأنصاري (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال ") : بالتحتانية، وقيل بالفوقية (أمتي بخير - أو قال: على الفطرة -) : أي: السنة المستمرة، أو الإسلام الذي لم يدخله تبديل في أركانه ومتمماته، شك من الراوي (ما لم يؤخروا المغرب إلى أن تشتبك النجوم) : أي: تصير مشتبكة كالشبكة قاله ابن الملك. أي: يظهر جميعها ويختلط بعضها ببعض، وهذا يدل على أن لا كراهة بمجرد الطلوع، وقال الطيبي: أي تختلط لكثرة ما ظهر منها، وفي شرح السنة اختار أهل العلم من الصحابة والتابعين ومن بعدهم تعجيل المغرب اهـ. وما وقع من تأخيره عليه الصلاة والسلام في أحاديث صحيحة محمول على بيان الجواز. (رواه أبو داود)."
(کتاب الصلاۃ، باب تعجيل الصلوات، ج:2، ص:524، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)
المفاتیح فی شرح المصابیحمیں ہے :
"وأراد بقوله: "ملائكة" هنا: الملائكة الذين يكتبون أعمال العباد. "ويجتمعون في صلاة الفجر وصلاة العصر"؛ يعني: يكتب الملائكة الذين يكونون مع الناس في الليل حتى يجيء الملائكة الذين يكونون معهم في النهار؛ أي: في النهار عند صلاة الصبح، فإذا جاء الذين يكونون معهم في النهار وقت صلاة الصبح يعرج الذين كانوا معهم في الليل، وإذا كان وقت العصر يجيء الذين يكونون معهم في الليل ويعرج الذين جاؤوا وقت الصبح.
والمراد بهذا الحديث تحريض الناس على المواظبة على هاتين الصلاتين.
قولهم: "تركناهم وهم يصلون"؛ أي: تركناهم في هذه الساعة وهم يصلون الصبح.
"وأتيناهم" أي: لما نزلنا بهم كانوا يصلون العصر."
(كتاب الصلاة،باب تعجيل الصلاة،فصل ج : 2 ص : 34 ط : دارالنوادر)
المحیط البرھانی في الفقه النعمانی میں ہے:
"قال في «الجامع الصغير» : ويجلس بين الأذان والإقامة إلا في المغرب، وهذا قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: يجلس في المغرب أيضاً جلسةً خفيفةً، يجب أن يعلم بأن الفصل بين الأذان والإقامة في سائر الصلوات مستحب.والأصل في ذلك قوله عليه السلام لبلال: «اجعل بين أذانك وإقامتك مقدار ما يفرع الأكل من أكله، والشارب من شربه» ، واعتبر الفصل في سائر الصلوات بالصلاة، حتى قلنا: إن في الصلوات التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب، فالأولى للمؤذن أن يتطوع بين الأذان الإقامة.جاء في تفسير قوله تعالى: {ومن أحسن قولاً ممن دعآ إلى الله وعمل صٰلحاً} (فصلت: 33) أنه المؤذن يدعوا الناس بأذانه ويتطوع بعده قبل الإقامة، ولم يعتبر الفصل في المغرب بالصلاة؛ لأن الفصل بالصلاة في المغرب يؤدي إلى تأخير المغرب عن أول وقته، وتأخير المغرب مكروه، وقال النبي عليه السلام: «لا تزال أمتي بخير ما لم يؤخروا المغرب إلى اشتباك النجوم»، ويؤيده قوله عليه السلام: «بين كل أذانين صلاة إلا المغرب» ، وأراد بالأذانين الأذان والإقامة، وإذا لم يفصل بالصلاة في المغرب يتأدى بفصل، قال أبو يوسف ومحمد: يفصل بجلسة خفيفة؛ لأن الجلسة صالحة للفصل. ألا ترى أنها صلحت للفصل بين الخطبتين يوم الجمعة، فهنا كذلك، وقال أبو حنيفة: يفصل بالسكوت؛ لأن لما لم يفصل بالصلاة التي هي عبادة، لتكون أقرب إلى الأداء أبعد عن التأخير فلأن لا يفصل ... بعبادة أولى، والفصل يحصل بالسكوت حقيقةً، فلا حاجة إلى اعتبار الجلسة للفصل، ثم عند أبي حنيفة مقدار السكتة ما يقرأ ثلاث آيات قصار أو آية طويلة، وروي عنه أنه قال: مقدار ما يخطو ثلاث خطوات، وعندهما مقدار الجلسة ما جلس الخطيب بين الخطبتين من غير أن يطول، وتمكن مقعده على الأرض".
(کتاب الصلاۃ، الفصل السادس عشر في التغني والألحان، ج:1، ص:335، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601100087
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن