بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی نماز سے قبل نفل پڑھنے کا حکم


سوال

احناف کے ہاں تو بعد اذانِ مغرب اور قبل صلاةِ مغرب نوافل پڑھنا مکروہ ہے، اگر کوئی حنفی ایسی مسجد میں گیا جہاں وہ لوگ چند منٹ کا وقفہ کرتے ہیں ،تو اگر یہ حنفی وہاں اس وقت میں دو رکعت نفل پڑھنا چاہے تو کیا پڑھ سکتا ہے یا نہیں ؟ 

جواب

مغرب کی نماز میں چوں کہ تعجیل مطلوب ہے، اس وجہ سے احناف کے نزدیک مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان نفل نہیں ادا کرنے چاہییں۔ نیز واضح رہے کہ اذانِ مغرب اور نمازِ مغرب کے درمیان  دو رکعت سنت یا مستحب  نہیں ہے۔     اگر کوئی شخص  ایسے ملک میں ہوجہاں  کسی مسجد میں  مغرب کی جماعت میں دو تین منٹ یا زیادہ تاخیر کی جارہی ہو تو   تب بھی فقہائے حنفیہ کے نزدیک مغرب کی فرض نماز سے قبل  حنفی مقلد کے لیے وہاں نوافل پڑھنا مکروہ ہوگا۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے اربعہ رحمہم اللہ  سے مغرب سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھنا ثابت نہیں۔

سنن ابوداؤد میں ہے:

’’عن طاؤسؒ قال: سئل ابن عمرؓ عن الرکعتین قبل المغرب ، فقال: ما رأیتُ أحداً علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلیہما، ورخص فی الرکعتین بعد العصر.‘‘  

(کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ قبل المغرب، ج:1، ص:190، ط: رحمانیہ) 

’’کتاب الآثار بروایۃ الإمام محمدؒ‘‘ میں ہے:

’’عن حمادؒ قال: سألت إبراهیم عن الصلاۃ قبل المغرب ، فنهانی عنها وقال: إن النبی صلی اللہ علیه وسلم وأبابکرؓ وعمرؓ لم یصلوها ، قال محمدؒ: وبہ نأخذ، إذا غابت الشمس فلا صلاۃ علٰی جنازۃ ولاغیرها قبل صلاۃ المغرب، وهو قول أبی حنیفة رضی اللّٰہ عنه.‘‘

(کتاب الصلاۃ، باب مایعاد من الصلاۃ وما یکرہ منها، ج:1،ص:374، بتحقیق الشیخ ابی الوفاء الأفغانی رحمة اللہ علیه ، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)

’’کشف الأستار عن زوائد البزّار للہیثمی‘‘ میں ہے:

’’عن عبد اللّٰہ بن بریدۃؓ عن أبیه أن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ إلا المغرب.‘‘

  (ابواب صلاۃ التطوع، باب بین کل أذانین صلاۃ ، ج:1،ص:334، ط: مؤسسة الرسالۃ، بیروت)

’’الدرالمختار‘‘ میں ہے:

’’وکرہ نفل… وقبل ) صلاۃ (المغرب) لکراهة تاخیره إلا یسیراً۔ وفی الرد: (قوله: وقبل صلاۃ المغرب) علیه أکثر أهل العلم، منهم أصحابنا ومالکؒ، وأحد الوجهین وغیرهما مما یفید أنه صلی اللہ علیہ وسلم کان یواظب علی صلاۃ المغرب بأصحاب عقب الغروب … روی عن محمدؒ عن أبی حنیفة عن حمادؒ :أنه سأل إبراهیم النخعیؒ عن الصلاۃ قبل المغرب ، قال: فنهی عنها، وقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم وأبابکرؓ وعمرؓ لم یکونوا یصلُّونها.‘‘

(کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج:1، ص:376،374، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’(قوله: ویجلس بینهما إلا فی المغرب) أی ویجلس المؤذن بین الأذان والإقامة علی وجه السنّیة إلا فی المغرب فلا یسنّ الجلوس بل السکوت مقدارَ ثلاث خطوات، وهذا عند أبی حنیفة، وقالا: یفصل فی المغرب بجلسة خفیفة قدرَ جلوس الخطیب بین الخطبتین، وهی مقدار أن تتمکن مقعدته من الأرض بحیث یستقر کل عضو منه فی موضعه.‘‘ 

(کتاب الصلاۃ، باب الأذان،ج: 1،ص:261،ط:سعید)

’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:

’’واختلفوا فی مقدار الفصل فعند أبی حنیفة رحمه اللّٰہ: المستحب أن یفصل بینہما بسکتة یسکت قائماً ساعة ثم یقیم ومقدار السکتة قدر ما یتمکن فیه من قراء ۃ ثلٰث آیات قصار أو أٰیة طویلة، وعندهما یفصل بینہما بجلسة خفیفة مقدار الجلسة بین الخطبتین.‘‘

(کتاب الصلاۃ، الباب الثانی فی الأذان، الفصل الثانی فی کلمات الأذان، ج:1، ص:57، ط: رشیدیه)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:

مغرب کی اذان ہو گئی ہے، لوگ نفل پڑھتے ہیں ،میں جناب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قائل ہوں کیا فرض کی نماز سے پہلے میں بھی وضو کر کے نفل پڑھ لوں؟ اگر پڑھ لوں  تو اس نماز میں فرض پہلے کیوں دیے گئے ؟

جواب:

:وکرہ نفل… وقبل ) صلاۃ (المغرب) لکراهة تاخیرہٖ إلا یسیراً۔ وفی الرد: (قوله: وقبل صلاۃ المغرب) علیه أکثر أهل العلم، منهم أصحابنا ومالکؒ، وأحد الوجهین وغیرهما مما یفید أنه صلی اللہ علیه وسلم کان یواظب علی صلاۃ المغرب بأصحابه عقب الغروب … روی عن محمدؒ عن أبی حنیفۃؒ عن حمادؒ :أنہٗ سأل إبراہیم النخعیؒ عن الصلاۃ قبل المغرب ، قال: فنهی عنها، وقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم وأبابکرؓ وعمرؓ لم یکونوا یصلُّونها............الخ

عبارات منقولہ بالا میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ تعالی عنہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اور بعد کے اکابر ائمہ مجتہدین رحمہ اللہ تعالی کا عمل، مسلک بیان ہو گیا، آپ کے لیے راہ عمل یہ ہے کہ خود اس سے پرہیز کریں،  دوسروں کو اس عمل سے نہ روکیں، کسی سے بحث نہ کریں۔ فقط و اللہ تعالی اعلم۔"

( باب السنن والنوافل، الفصل الثانی فی النوافل ، جلد : دوم،   صفحہ:  192 و 193، طبع:  دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں