ہمارے محلہ میں 25 سے 30 گھرانے ہیں اگر محلے میں کوئی چوری ہوجائے تو محلہ کے سارے افراد کو مسجد میں جمع کیا جاتا ہے قرآن ہاتھوں میں یا سر پر رکھواکر قسم دیتے ہیں کہ اس محلے میں آئندہ چوری نہیں کرنا ہے، دو تین دفعہ یہ عمل ہوا ہے لیکن پھر بھی چوری ہوتی ہے۔
حالیہ ایک غریب گھرانے سے چوری ہوئی ہے، جب غریب آدمی نے کہا کہ میں سارے محلے والوں سے قسم لوں گا اس پر اہل محلہ کہتے ہیں کہ جس جس نےبھی قسم کھالی کہ اس نے چوری نہیں کی تو وہ بری ہوگا ،اور یہ قسم گویا اس پر تہمت ہے، لہذا وہ اس کا بدلہ لے گا (مالی ہویا کوئی اور جرم عزت اور آبرو کا نقصان ہو وغیرہ ) اورکیا اس طرح قسم لینے میں قرآن کی بے ادبی نہیں ہے؟
واضح رہے کہ کسی کو چورثابت کرنے کے شرعاً دو طریقے ہیں،یاچور خود چوری کا اعتراف کرےیا شرعی شہادت کے ذریعے چوری ثابت ہو جائے،اس کےعلاوہ کوئی اور طریقہ اختیارکرناشرعاًدرست نہیں ہے،لہذاسوال میں مذکورہ طریقہ کہ” اگر محلے میں کوئی چوری ہوجائے تو محلہ کے سارے افراد کو مسجد میں جمع کیا جاتا ہے قرآن ہاتھوں میں یا سر پر رکھواکر قسم دیتے ہیں کہ اس محلے میں آئندہ چوری نہیں کرنا ہے“،شرعاًیہ طریقہ درست نہیں ہے،جب مذکورہ بالاطریقہ درست نہیں توسوال میں مذکورہ غریب کاکسی سے قسم لینابھی جائز نہیں ہے۔
مشکاۃ شریف میں ہے:
"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه . رواه الترمذي."
ترجمہ:”حضرت عمروبن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والدسےوہ اپنے داداسے رویت کرتےہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے“۔
(كتاب الإمارة والقضاء، باب الأقضية والشهادات، الفصل الثاني، ج:2، ص:112، ط:المكتب الإسلامي)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(فصل) :وأما حجة المدعي والمدعى عليه فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله عليه الصلاة والسلام البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه جعل عليه الصلاة والسلام البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي واليمين."
(كتاب الدعوى، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه، ج:6، ص:225، ط:دار الكتب العلمية)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"أما أقسام الشهادة فمنها الشهادة على الزنا وتعتبر فيها أربعة من الرجال، ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين، ولا تقبل في هذين القسمين شهادة النساء هكذا في الهداية."
(كتاب الشهادة، الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك، ج:3، ص:451، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101961
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن