بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مہمان کوکھلانے کے آداب / عالم کی ذمہ داری


سوال

1-  مہمانوں کو کھلانے کے آداب بتادیں۔

2-  عالم اگر  علم  کی بات ایک بار آگے پہنچادے تو اس کے ذمے سے پہنچانے کی ذمہ داری ہٹ جاتی ہے ،یا ساری زندگی  بتاتے اور سکھاتے رہنا فرض ہے ؟  

جواب

1-  واضح رہے کہ مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاءِ کرام علیہم السلام  کی سنت ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا تذکرہ فرمایا ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے، نبی کریم ﷺ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت احادیث میں مہمان نواز ہونے کی بیان کی گئی ہے،اور نبی کریم ﷺ نے مہمانوازی کی ترغیب دی ہے۔چناں چہ ایک حدیث شریف  میں  ہے:

"عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلايؤذ جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت."(مشکاۃ المصابیح ،463/2)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو  چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے، جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو  چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور  جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو  چاہیے کہ بھلی بات کہے یا چپ رہے ۔"

 اورشریعت کی تعلیم اس باب میں یہی ہے کہ  اپنی استطاعت كي حد تك مهمان كو  اچھے سے اچھا، عمده  سے عمده کھانا پیش کرنا چاہیے،  اور عرف ميں مہمان كي تعظيم كے جو طریقے ہیں، ان کو بجالانا چاہیے،   اس کی راحت رسانی کا  بھرپور خیال رکھنا چاہیے، مہمان  کو کھانا پیش کرنے میں اگر خود ایثار کرنا پڑے تو وہ بھی کرنا چاہیے،  اور پہلے دن  اس کی ضیافت میں  استطاعت کے بقدر قدرے تکلف سے کام لینا چاہیے، اور اس کے بعد  جو حاضر ہو وہ پیش کردیا  جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔(مظاہر حق )

2-   ایک مرتبہ نصیحت کردینے سے یا علم کی بات آگے پہنچانے دینے سے ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ  ہر مسلمان پر بقدر  اس کے علم کے لازم ہے کہ وہ اپنے توابع اورمتعلقین ِاہل وعیال کو تبلیغ ِدین کرتا رہے اور احکام ِشریعت بتلاتا اوراس پر عمل کی تاکید کرتا رہے اورہر وقت ’’کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتة‘‘کو پیش ِ نظر رکھ کر اپنی مسئولیت کا خیال رکھے اپنے گردوپیش اوراپنے ماحول میں بقدرِ استطاعت احکامِ دین کی تبلیغ اوراصلاحِ اخلاق کی سعی اورکوشش میں لگارہے ، اور حضرات علماء کرام کا شمار تو چو ں کہ خواصِ امت میں ہوتا ہے اور ان کی ترقی وتنزل سے پوری امت متأثر ہوتی ہے،لہذا ان کی ذمہ داری باقی لوگوں سے زیادہ  ہے، اس لیے علماء کا یہ  فرض ہے کہ ان عظیم الشان ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس کریں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی تدابیر کریں،    رسول اللہ   ﷺکی جو امانت  ان کے سپرد کی گئی ہے، اس کے لیے فکرمند ہوں اور امت کو آنحضرت  ﷺ کے راستے پر لانے کی ہرممکن کوشش کریں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا، فليتبوأ مقعده من النار» ". رواه البخاري

  قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (بلغوا عني) : أي: انقلوا إلى الناس، وأفيدوهم ما أمكنكم، أو ما استطعتم مما سمعتموه مني، وما أخذتموه عني من قول أو فعل، أو تقرير بواسطة أو بغير واسطة (ولو آية) أي: ولو كان المبلغ آية وهي في اللغة العلامة الظاهرة. قال زين العرب: وإنما قال " آية " لأنها أقل ما يفيد في باب التبليغ، ولم يقل حديثا لأن ذلك يفهم بطريق الأولى لأن الآيات إذا كانت واجبة التبليغ مع انتشارها، وكثرة حملتها لتواترها، وتكفل الله تعالى بحفظها وصونها عن الضياع والتحريف لقوله تعالى: {إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون} [الحجر: 9] فالحديث مع أنه لا شيء فيه مما ذكر أولى بالتبليغ، وأما لشدة اهتمامه عليه الصلاة والسلام بنقل الآيات لبقائها من سائر المعجزات، ولمساس الحاجة إلى ضبطها ونقلها إذ لا بد من تواتر ألفاظها، والآية ما وزعت السورة عليها."

(کتاب العلم ،280/1،رقم،198،ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں