1۔میرے بہنوئی نےبہن کو اس کا حق مہر ادا نہیں کیا،وہ کہتا ہے کہ مہردینا اور نہ دینا دونوں برابر ہے۔اس کے بارے میں وضاحت کریں ۔
2۔میری بہن کی شادی کو تقریباً 3 سال 2 مہینے ہو چکے ہیں ، وہ دونوں آپس میں جھگڑ تے رہتے ہیں اور بہنوئی ہماری بہن کو ہم سے ملنے سے منع کرتے ہیں، بہنوئی نان نفقہ میں اس کو صرف 13 ہزار روپے دیتا ہے، باقی گھر کا کرایہ اور بجلی، گیس کا بل میڈیکل سب کچھ میں برداشت کرتاہوں جو تقریباً 15 لاکھ 52 ہزار بنتے ہیں۔کیا بہن کا یہ خرچہ ہماری ذمہ داری ہےیا بہنوئی کی؟اور ہمارا بہنوئی ایسا کرنے پر راضی ہی نہیں ۔ اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔
3۔ والد صاحب کا ترکہ ابھی تک ہم نے تقسیم نہیں کیا ہے، ہم کل ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔کیا میں تقسیم کے بعد اپنی بہن کے حصے سے خرچ کردہ رقم لے سکتا ہوں؟۔اور یہ بھی بتادیں کہ میری بہن کی وفات کے بعد کون اس کے وارث ہوں گے؟اس کے ورثاء میں ایک بھائی ،ایک بہن اور شوہر ہے،فی الحال کوئی اولاد نہیں ہے۔
1۔ مہر بیوی کا حق ہے ،جو شوہر کے ذمہ واجب الاداء ہے،جب تک ادا نہ کرے وہ شوہر پر قرض رہتا ہے؛ لہذا شوہر کا یہ کہنا کہ ”مہر دینا نہ دینا برابر ہے“ بالکل غلط ہے۔
2۔سائل كے بہنوئی کا اپنی بیوی کو بھائیوں سے ملنے سے روکنا درست نہیں ہے،سائل پر بہن کے گھر کا کرایہ اور بل وغیرہ ادا کرناشرعاً لاز م نہیں ہیں ،بلکہ یہ سب کچھ شوہر کے ذمہ لازم ہیں۔
3۔تقسیم میراث کے بعد سائل کو یہ حق نہیں ہےکہ وہ اپنی بہن کے حصہ سے خرچ کی ہوئی رقم کاٹ لے، کیوں کہ وہ سائل کی طرف تبرع اور احسان تھا ،البتہ سائل کی بہن اپنی خوشی سے دینا چاہے تو دے سکتی ہے،البتہ اگر بہن پر واضح کرکے یہ طے کرلیں کہ آئندہ جو رقم خرچ کریں گے، اس کو حصۂ ترکہ میں سے منہا کریں گے تو اس صورت میں بھائیوں کا بہن کے حصۂ ترکہ میں سے اپنی رقم لینا درست ہوگا۔
احکام القرآن میں ہے:
"قال الله تعالى وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم فعقد الإباحة بشريطة إيجاب بدل البضع وهو مال فدل على معنيين أحدهما أن بدل البضع واجب أن يكون ما يستحق به."
(سورة النساء، الآية: 24، باب المهور، ج: 3،ص: 86، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاوی شامی میں ہے:
" في الدر: (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي.
وفي الرد: (قوله في كل سنة) وقيل في كل شهر كما مر."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج: 3، ص: 602، ط: سعيد)
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(كتاب المداينات: ج: 2 ،ص: 226، ط: دار المعرفة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512100715
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن