بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مہر معاف کرانے کے لیے شوہر کا بیوی کو خلع دینے کا حکم


سوال

ایک لڑکی کا نکاح 2020 ء میں ہوا،ڈھائی مہینے تک ساتھ رہے،پھر  درمیان میں کچھ ناچاقی ہوئی اور لڑکی والدین کے گھر بیٹھ گئی، لڑکے والوں نے پیغام بھجوایاکہ سامان اٹھاؤ،وہ ہم نےاٹھایا،اب کسی نے ان کو یہ بات بتائی ہے کہ طلاق نہ دوتاکہ وہ خلع نامہ پر مجبور ہوجائے اور مہرمعاف کرلے،وہ لوگ مہر نہ دینے کے لیے بہانہ کررہےہیں، لڑکی کو طلاق نہیں دے رہے ہیں،تاکہ وہ خلع لینے پر مجبور ہوجائے،اب شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ شوہر کے اس فعل کا کیاحکم ہے؟

وضاحت : نکاح کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے یہ شرط لگائی گئی تھی کہ لڑکی کی والدہ چوں کہ بیمار ہے ،لہذا وہ رات کےوقت اپنے شوہر کے پاس یعنی  سسرال کےگھر پررہے گی،صبح دس گیارہ بجے سے شام  تک اپنی والدہ کی خدمت کے لیےاس کے پاس رہے گی،ڈھائی مہینے تک اس شرط پر شوہر کی طرف سے عمل ہوتا رہا ،لیکن بعد میں شوہرنے اپنی بیو ی کو ہردن میکہ  جانے سے منع کیا،اسی پر دونوں کےدرمیان  ناچاقی  ہوئی ، اور لڑکی نے کہا کہ اب میں سسرال  نہیں جاؤں گی ،جس کے بعد سے اب تک وہ  والدین کے گھر   بیٹھی ہوئی  ہے ، شوہر کے پاس نہیں آرہی ہے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں سب سے پہلے  میاں بیوی کو چاہیے کہ شریعتِ مطہرہ کی بتائی ہوئی حدود کے دائرہ میں   جہاں تک  دونوں کے لیے ایک ساتھ رہناممکن ہو  ،ایک ساتھ رہنا چاہیے ،بلاکسی وجہ کے طلاق یا خلع کی طرف اقدام نہیں کرنا چاہیے  ،کیوں  کہ طلاق یا خلع اللہ رب العزت کے نزدیک مباح چیزوں میں سب سے مبغوض وناپسندیدہ ہے، اس لیےاب بھی اگر میاں بیوی  دونوں کےلیے اپنی ناچاقی ختم کرکےایک ساتھ رہنااور گھر بسانا  ممکن ہے تو ایک ساتھ رہ کر ازدواجی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائیں ،اور ہر ایک دوسرے کےحقوق واجبہ کا خیال کرے،  لیکن اگر   میاں بیوی کی ناچاقی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس  کی وجہ سے دونوں کے لیے    شریعتِ مطہرہ کی بتائی ہوئی حدود کے دائرہ میں  ایک ساتھ رہنا مشکل  ہوگیا ہے  تو  میاں بیوی دونوں کے  خاندان کے  افراد کو چاہیے کہ مذکورہ  معاملہ کوسلجھا کر  حد درجہ نباہ کی کوشش کریں، اگر  نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو اوریہ یقین ہوجائے کہ اب   دونوں میں گزر بسر ممکن نہیں  تو ایسی صورت میں لڑکی    طلاق  یا خلع کے ذریعہ شوہر سے خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔

  صورتِ مسئولہ میں نکاح کےوقت لڑکی والوں نے جوشرط رکھی تھی کہ لڑکی صبح دس بجے سے شام تک اپنی بیمار والدہ کی خدمت کےلیے  والدہ کے پاس رہے گی تو اگر لڑکے نے اس پر رضامندی ظاہر کی تو دیانۃً اسے اس کی پاسداری کرنی چاہیےاور بیوی کو اپنی والدہ کی تیمارداری کی سہولت دینی چاہیے،لیکن اگر شوہر اس سہولت دینے کوتیار نہیں تو چوں کہ یہ بیوی کے حقوقِ واجبہ میں سے نہیں ،اس لیے شوہر کو قضاء مجبور نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہی کہا جائے گاکہ شوہر نے وعدہ کے ساتھ مذکورہ رعایت جو دی تھی وہ ختم کردی ،لیکن مذکورہ صورت میں  لڑکی نےشوہر کی  اطاعت کے بجائے اس پر اپنے شوہر کے ساتھ ناچاقی کی ہے اور   اپنے والدین کے گھر بیٹھ گئی ہے اور شوہر کے پاس نہیں آرہی ہے،جس کی بناء پر اب  شوہر  طلاق نہیں دےرہا ہے ،بلکہ  مہر معاف کرانے کے لیے رضامندی سے  خلع دے رہا ہے تو ایسی صورت میں  شوہر کے لیے  مہر کےمعاف کرانے پر خلع  دینا درست ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا ‌تشاق ‌الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

 إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

 وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان ."

(كتاب الطلاق ،الباب الثامن في الخلع ، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به ، ج:1، ص : 488 ،ط : دارا لفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق. 

(قوله: وكره تحريما أخذ الشيء) أي قليلا كان، أو كثيرا. والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا {فلا تأخذوا منه شيئا}  إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث، وتمامه في الفتح، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي: أخرج ابن أبي جرير عن ابن زيد في الآية قال: ثم رخص بعد، فقال - {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- قال فنسخت هذه تلك اهـ وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت اهـ أي سواء كان النشوز منه أو منها، أو منهما. لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط، والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما، وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابتة بالإجماع، وبقوله تعالى - {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة: 231]- وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ مالها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم (قوله: ويلحق به) أي بالأخذ (قوله: إن نشز) في المصباح نشزت المرأة من زوجها نشوزا من باب قعد وضرب عصته. ونشز الرجل من امرأته نشوزا بالوجهين: تركها وجفاها، وأصله الارتفاع اهـ ملخصا (قوله: ولو منه نشوز أيضا) لأن قوله تعالى - {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- يدل على الإباحة إذا كان النشوز من الجانبين بعبارة النص، وإذا كان من جانبها فقط بدلالته بالأولى."

(کتاب الطلاق ،باب الخلع ، ج :3 ،ص :  445 ،ط : دار الفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"والحاصل أن ما في النساء منسوخ بآية البقرة، وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت أطلقه فشمل القليل والكثير، ويلحق به الإبراء عما لها عليه فإنه لا يجوز أيضا إذا ‌كان ‌النشوز ‌منه لأنه اعتداء وإضرار (قوله وإن نشزت لا) أي لا يكره له الأخذ إذا كانت هي الكارهة أطلقه فشمل القليل والكثير، وإن كان أكثر مما أعطاها، وهو المذكور في الجامع الصغير، وسواء كان منه نشوز لها أيضا أو لا فإن كانت الكراهة من الجانبين فالإباحة ثابتة بعبارة قوله تعالى {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة:229] وإن كانت من جانبها فقط فبدلالتها بالأولى، والمذكور في الأصل كراهة الزيادة على ما أعطاها، وينبغي حمله على خلاف الأولى."

  (کتاب الطلاق ، باب الخلع ،ج : 4 ،ص : 83 ،ط : دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں