میرا ایک بھائی ہے اس کی منگنی نہیں ہوئی ہے ،تقریبا 8سالوں سے ہمارے والد صاحب میرے بھائی کے لئے رشتہ ڈھونڈتے ہیں، لیکن اتنی اچھی کوشش بھی نہیں کی ہے،تقریبا بھائی کی عمر 30 سال ہوگئی ہے،اور ہمارے علاقے کے لوگوں نے حق مہر 2لاکھ روپے رکھا ہے،لیکن لوگ چپکے سے 10 سے 15لاکھ تک میں رشتہ دینے پر راضی ہوجاتے ہیں،تو میں نے والد صاحب کو بولا ہے کہ کوئی بھی 2لاکھ پر راضی نہیں ہے،پیسے میں دیتا ہوں چاہے 10لاکھ ہوں یا 15 لاکھ لیکن بھائی کےلئے رشتہ ڈھونڈو،تو آگے سے والد صاحب کہتے ہیں کہ اس میں گناہ ہے کیونکہ علاقے کے لوگوں نے 2لاکھ حق مہر مقرر کیاہے،ہم کیسے 10، 15لاکھ میں رشتہ ڈھونڈیں،اب میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم 10 سے 15لاکھ تک بھائی کےلئے رشتہ ڈھونڈیں یعنی علاقے والوں کو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے 2لاکھ دیا ہے تو کیا اس میں گناہ تو نہیں ہے؟
باقی وہ15،10 لاکھ جو ہم لڑکی کے باپ کو دیں گے وہ تو ظاہر سی بات کہ وہ پیسہ باپ خود کھائے گا اس لئے تو وہ اتنا مہنگا رشتہ دیتا ہے۔
مہر زیادہ سے زیادہ کتنا ہو شریعت نے اس کی کوئی مقدار متعین نہیں کی بلکہ مہر کی تعیین کو میاں بیوی کی باہمی رضامندی اور عرف پر چھوڑا ہے، لہذاکسی بھی علاقے والوں کےلئے یہ جائز نہیں کہ وہ پورےعلاقے کےلئے مہر کی ایک مخصوص مقدار لازم کر دیں، البتہ اتنا زیادہ مہر رکھنے کو رواج دینا کہ جس سے نکاح کرنا ہی مشکل ہو جائے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
لہذاصورت مسئولہ میں فریقین اپنی رضامندی سے جتنا بھی مہر مقرر کریں ان پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا، لیکن مہر لڑکی کا حق ہے، لڑکی کے والد کا مہر لڑکی کو دینے کی بجائے اپنے پاس رکھنا اور خود استعمال کرنا جائزنہیں ہے، اسی طرح اگر لڑکی کا والد رشتہ طے کرتے وقت اپنے لیے مہر کے علاوہ کوئی رقم لیتا ہے تو یہ بھی شرعاًجائز نہیں بلکہ رشوت ہے، اگر کسی نے یہ رقم وصول کی ہو تو اس پر یہ رقم لڑکے کوواپس کرنا لازم ہے، تاہم اگر لڑکی کا والد یہ رقم لڑکی کا جہیز یا دیگر سامان وغیرہ خریدنے کے لئےوصول کرے اور لڑکا بھی اس کے دینے پر راضی ہوتو شرعاًلڑکی کے والد کے لیے یہ رقم لینے کی گنجائش ہے لیکن اس میں زور زبردستی کی بجائے لڑکے کی استطاعت کا خیال رکھنا لازم ہوگا۔
باقی مہر سب کو بتاناضروری نہیں صرف فریقین کے درمیان طے ہو جائے یہ بھی کافی ہے نکاح کے وقت مہر کا تذکرہ کیےبغیر ہی نکاح کر لیا جائے۔
تفسير النسفي میں ہے :
"{وآتيتم إحداهن} وأعطيتم إحدى الزوجات فالمراد بالزوج الجمع لأن الخطاب لجماعة الرجال {قنطارا} مالا عظيما كما مر فى آل عمران وقال عمر رضى الله عنه على المنبر لا تغالوا بصدقات النساء فقالت امرأة أنتبع قولك أم قول الله وآتيتم إحداهن قنطارا فقال عمر كل أحد أعلم من عمر تزوجوا على ماشئتم."
(ج:1،ص: 344،ط:دار الكلم الطيب، بيروت)
شعب الإيمان میں ہے:
"عن عائشة قال: النبي صلى الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤونة."
(باب الاقتصاد في النفقة وتحريم أكل المال الباطل، ج:5،ص: 254،ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فتح القدير میں ہے:
"ثم المهر واجب شرعا إبانة لشرف المحل فلا يحتاج إلى ذكره لصحة النكاح."
(كتاب النكاح،باب المهر،ج:3،ص: 316،ط:دار الفكر، بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(أخذ أهل المرأة شيئا عند التسليم فللزوج أن يسترده) لأنه رشوة.
(قوله عند التسليم) أي بأن أبى أن يسلمها أخوها أو نحوه حتى يأخذ شيئا، وكذا لو أبى أن يزوجها فللزوج الاسترداد قائما أو هالكا لأنه رشوة."
(کتاب النکاح،باب المهر،ج:3،ص:156،ط:دارالفکر)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولو تزوج امرأة على أن يهب لأبيها ألف درهم فهذا الألف لا يكون مهرا ولا يجبر على أن يهب فلها مهر مثلها، وإن سلم الألف فهو للواهب وله أن يرجع فيها إن شاء."
(کتاب النکاح ، الفصل الرابع فی الشروط فی المهر ،ج:1، ص: 308،ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100869
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن