بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

محض چھاتی منہ میں لینے سے رضاعت کا حکم


سوال

میرا ایک لڑکی سے رشتہ طے ہوا ہے، امی کہتی ہیں کہ اس لڑکی کی ماں تمہیں جب تم روتے تھے تو تمہارا منہ اپنے سینے پہ اس جگہ لگاتی تھی جہاں سے دودھ آتا ہے، امی کہتی ہیں، اس کا دودھ تمہارے منہ میں نہیں جاتا تھا، کچھ مولوی صاحبان نے کہا ہے کہ چاہے دودھ نہ بھی پیا ہو صرف منہ لگانے سے وہ آپ کی رضائی ماں بن گئی ہے؛ اس لیے اس کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے، آپ بتائیں کیا کروں؟ اس وقت میری عمر ایک سال تھی!

جواب

اگر یہ بات یقینی ہے کہ واقعتًا اس عورت کا دودھ  نہیں نکلا اور سائل کے منہ میں نہیں گیا (یقنی بات تو  دودھ پلانے والی ہی بتلا سکتی ہے نہ کہ سائل کی امی) تو محض چھاتی منہ میں  لینے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی، سائل مذکورہ لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے۔ اور اگر یقین یا غالب گمان یہ ہے کہ مذکورہ لڑکی کی ماں کا دودھ سائل نے پیا ہے یا دودھ کے کچھ قطرے سائل کے حلق سے اترے ہیں تو  پھر رضاعت ثابت ہو جائے گی، اس لڑکی سے سائل کا نکاح جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لاتثبت الحرمة بالشك. ثم قال: والواجب على النساء أن لايرضعن كل صبي من غير ضرورة، وإذا أرضعن فليحفظن ذلك وليشهرنه ويكتبنه احتياطًا اهـ ."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج: 3/ صفحہ: 212، ط:ایچ، ایم، سعید)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم، كذا في الهداية. قال في الينابيع. والقليل مفسر بما يعلم أنه وصل إلى الجوف، كذا في السراج الوهاج."

( كتاب الرضاع،ج: 1/ صفحہ: 342، ط: دار الفكر)

کفایت المفتی میں ہے:

’’جواب: محض چھاتی منہ میں لینے سے حرمتِ  رضاعت ثابت نہیں ہوتی، جب تک کہ دودھ حلق سے اترنے کا یقین یا  گمان غالب نہ ہوجائے۔‘‘

وفیہ ایضا:

’’اگر یہ بات یقینی ہے کہ دودھ نہیں  نکلا  اور زینب نے زید کی ماں  کا دودھ نہیں پیا تو ان دونوں کا  باہم نکاح جائز ہے۔‘‘

(ج: 7/ صفحہ: 526 و527، ط: ادارہ الفاروق کراچی) 

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’۔۔۔شک سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، اور احتیاط اور تنزہ  یہ ہے کہ  اس بچے کا نکاح اس  کی اولاد سے نہ کیا جاوے۔۔۔فقط۔‘‘

(فتاوی دارالعلوم دیوبند، ج: 7/ صفحہ: 435 و436، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں