عرض یہ ہے کہ والد صاحب کی وراثت میں سے ہمارے بھائی کے حصے میں 46لاکھ روپے آئے ہیں، وہ شادی شدہ اور پانچ بچوں کا باپ ہے، 3 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں۔ ہمارا بھائی چرس پیتا تھا، پھر ہیروئن اور آئس کا نشہ کرنے لگا، اپنی بیوی بچوں پر تشدد کرتا تھا، پھر اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ ہمارے بھائی کو ہم نے اور والد صاحب نے دو ہائی روف گاڑیاں دلوائی تھیں، جن سے یہ اپنا کاروبار وغیرہ کرکے گھر کا خرچ چلائے، لیکن اس نے وہ بھی بیچ دیں، اب اس کے بیوی بچوں کے پاس نہ کوئی ذریعۂ معاش ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی آمدنی اور گھر ہے۔ لہذا آپ سے یہ معلوم کرنا ہے ہمارے بھائی کو جو والد صاحب کی وراثت میں سے حصہ ملا ہے، اس کا ہم کیا کریں؟ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر بھائی کو پیسے دے دیں تو یہ ان کو بھی ضائع کردے گا، اور اس کے بچوں کا کیا کیا جائے؟، کیوں کہ اس کی دوستی اور ملنا جلنا غلط قسم کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ مہربانی فرما کر قرآن وسنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
نوٹ: بھائی کے بچے اپنی والدہ کے ساتھ کرایہ کے گھر پر رہتے ہیں اور بچے سب نابالغ ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کا مذکورہ بھائی اگر واقعۃً نشہ کرتا ہے اور ورثاء کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر وراثت کا مال اس کے حوالہ کردیا جائے تو وہ اسے ضائع کردے گا، تو ایسی صورت میں دیگر ورثاء کسی بھائی کو اس کے مال کا نگران مقرر کردیں، جو بقدر ضرورت اس کے حصے میں سے مال لے اورمذکورہ بھائی اور اس کی اولاد پر خرچ کرے اور سارا حساب کتاب محفوظ رکھے۔ نیز اگر مذکورہ بھائی کی مطلقہ عدت میں ہے تو اس پر بھی خرچ کیا جائے گا، تاہم عدت مکمل ہونے کے بعد مطلقہ پر اس کے مال میں سے خرچ نہیں کیا جائے گا۔
الدر المختار میں ہے:
"(ولا يحجر حر مكلف بسفه) هو تبذير المال وتضييعه على خلاف مقتضى الشرع أو العقل درر ولو في الخير كأن يصرفه في بناء المساجد ونحو ذلك فيحجر عليه عندهما...... (وعندهما يحجر على الحر بالسفه و) الغفلة و (به) أي بقولهما (يفتى) صيانة لماله وعلى قولهما المفتى به (فيكون في أحكامه كصغير)."
(كتاب الحجر، ج:6، ص:148، ط: ايچ ايم سعيد)
فتح القدیر میں ہے:
"(قوله ونفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد) قيد بالصغر فخرج البالغ."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:4، ص:410، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الثالث، ج:1، ص:557، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100212
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن