میری شادی میرے ماموں کی بیٹی سے ہوئی ہے اور اب ہمارا ایک بیٹا ہے، شادی سے پہلے مجھے میری امی نے بتایا تھا کہ آپ کی نانی نے چپ کرانے کے لیے آپ کے منہ میں اپنا پستان دیا تھا، لیکن اس وقت ان کے پستان میں دودھ نہیں تھا، پھر ابھی کچھ دن پہلے مجھے میرے بیوی نے بھی بتایا کہ اسے اس کی دادی نے پستان دیا تھا، لیکن اس وقت ان کے پستان میں دودھ نہیں تھا تو پھر بھی میں نے تسلی کے لیے اپنی امی سے اپنے بارے میں پوچھا تو میری والدہ نے وہی بات بتائی کہ ان کے سینے میں دودھ نہیں تھا، پھر میں نے اپنی ساس، سسر سے اپنی بیوی کی متعلق پوچھا تو ان لوگوں نے بھی یہی بات بتائی کہ اس وقت دادی کے پستان میں دودھ نہیں تھا تو اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں کہ کیا ہمارے نکاح میں کوئی فرق پڑ رہا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر یقینی طور پر عورت کے پستان میں دودھ نہ تھا اور اس نے اپنے نواسے (سائل) اور اپنی پوتی (سائل کی بیوی) کے منہ میں پستان ڈال دیا اور دودھ نہیں نکلا تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوئی ہے، لہذا سائل اور اس کی بیوی کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكًّا، ولوالجية.
(قوله: فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك."
(كتاب النكاح، باب الرضاع، ج:3، ص:212، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100819
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن