بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو القعدة 1446ھ 30 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

محض وصیت کا ارادہ یا اظہار کرنے سے وصیت ثابت نہیں ہوتی


سوال

میرے شوہر کا انتقال میرے سسر کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا، تو میں عدت کے بعد اپنے والدین کے گھر میں رہنے لگی، میری ایک بیٹی ہے، میں نوکری کر کے اپنی بیٹی کے اخراجات پورے کرتی ہوں، میرے شوہر کے انتقال کے وقت میری بیٹی کی عمر 2 سال تھی، میرے ساس اور سسر کو مجھ سے اور میری بیٹی سے بہت محبت تھی، جس وجہ سے میرا سسرال میں آنا جانا رہتا تھا، لیکن میں اپنے والد کے گھر میں رہتی تھی جس کی وجہ سے میری ساس اور سسر نے میری بیٹی کا ماہانہ خرچہ جو وہ دیا کرتے تھے بند کر دیا، پھر تقریباً دس سال بعد ان کو اپنے اس فیصلہ پر  پر کافی دُکھ ہوا، جس پر انہوں نے دوبارہ ماہانہ خرچہ دینا شروع کر دیا، میرے سسر نے اپنے انتقال سے دو سال پہلے اپنی جائیداد (جس میں ایک گھر ہے) کے بارے میں بات کی کہ میں اس سے اپنی پوتی کو اپنی دو سگی بیٹیوں کے برابر حصّہ دینا چاہتا ہوں، اور اس بات کا اظہار وہ اپنی دونوں بیٹیوں سے بھی کرچکے تھے، اور وہ اس بات کی وصیت بھی لکھوانا چاہتے تھے، لیکن وہ خود لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، اور کسی سے لکھوائی بھی نہیں، کیوں کہ گھریلو حالات کی بنا پر وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے تھے، میرے مرحوم شوہر کے دو قریبی دوست تھے، جن کو یہ بات اور وصیت میرے سسر بتانا چاہتے تھے، لیکن میری دو نندوں نے میرے سسر کو اس بات سے روکا کہ ان دونوں کو آپ یہ بات نہ بتائیں اور ان سے اس بات کی وصیت نہ لکھوائیں، کیوں کہ میرے جیٹھ سے  میرے سسر کے تعلقات ٹھیک نہ تھے، لیکن میرے سسرنے پھر بھی کہا کہ میں ان کو یہ بات بتاؤں گا، لیکن وہ دونوں بندے کراچی سے باہر چلے گئے، پھر اس کے بعد میرے سسر کا جلد ہی انتقال ہوگیا، میرے سسر اپنی پوتی یعنی میری بیٹی کو اس لیے حصّہ سے دینا چاہتے تھے کہ کہیں کل قیامت کے دن میری پوتی میرا گریبان نہ پکڑے،  اب میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس مسئلہ کی شرعًا کیا حیثیت ہے؟ اور کیا میرے سسر کی جائیداد میں سے میری بیٹی کو حصّہ ملے گا یا نہیں؟

نوٹ: میرے سسر کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں حیات ہیں، جبکہ میری ساس کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اولاد میں سے جس کا انتقال والد ین کی زندگی میں ہوجائے تو شریعت کی رو سے وہ اپنے والد ین  کے ترکہ کا مستحق نہیں ہوتا، اور اسے ترکہ میں سے حصّہ نہیں دیا جاتا، اسی طرح جب میت کے بیٹا، بیٹی موجود ہوں تو میت کے ترکہ میں سے شرعًا پوتا یا پوتی کو حصّہ نہیں دیا جاتا، نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ وصیت کے ثابت ہونے کےلیے محض وصیت کا ارادہ یا اظہار کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ثبوت کےلیے باقاعدہ زبانی یا تحریری وصیت کرنا ضروری ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا انتقال جب ان کے والدین کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا تو شرعًا وہ اپنے والدین کے وارث نہیں ہوئے، اور جب سائلہ کے سسر کے بیٹے اور بیٹیاں (جیٹھ، نند وغیرہ) موجود ہیں تو ان کی موجودگی میں مرحوم سسر کی پوتی ان کی وارث نہیں بنے گی، لہٰذا یہ دونوں یعنی مرحوم بیٹا اور پوتی بطورِ وراثت مرحوم سسر کے ترکہ میں سے حصّہ دار نہیں ہوں گے۔

رہی بات وصیت کی تو چوں کہ وصیت کے ثبوت کےلیے باقاعدہ زبانی یا تحریری وصیت ضروری ہوتی ہے، جب کہ صورتِ مسئولہ میں مرحوم نے اپنی پوتی کےلیے وصیت نہیں کی تھی، صرف وصیت کا اظہار و ارادہ کیا تھا، اور باقاعدہ وصیت کرنے کا انہیں موقع نہیں ملاتھا تو اب مرحوم کی پوتی کو ترکہ میں حصّہ نہیں ملے گا، تاہم پوتی کو بالکلیہ محروم کرنا مناسب عمل نہیں، اگر مرحوم کے ورثاء اپنی طرف سےاجتماعًا یا انفرادًا اس بچی کو کچھ دے دیں تو یہ ان کی جانب سے احسان ہوگا اور باعث ثواب بھی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:758، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"(وللإرث شروط ثلاثة) أولها: تحقق موت المورث أو إلحاقه بالموتى حكما كما في المفقود إذا حكم القاضي بموته أو تقديرا كما في الجنين الذي انفصل بجناية على أمه توجب غرة. ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث، أو إلحاقه بالأحياء تقديرا، كحمل انفصل حيا حياة مستقرة لوقت يظهر منه وجوده عند الموت ولو نطفة."

(إرث، ج:3، ص:22، ط:دار السلاسل الکویت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الإيصاء في الشرع تمليك مضاف إلى ما بعد الموت يعني بطريق التبرع سواء كان عينا أو منفعة، كذا في التبيين أما ركنها فقوله أوصيت بكذا لفلان وأوصيت إلى فلان، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الوصايا، الباب الأول، ج:6، ص:90، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603100116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں