ہمارے ہاں مہر میں سونا وغیرہ کے ساتھ گھر یا مکان کا ایک کمرہ بھی طے کیا جاتا ہے،سونا تو اسی وقت یا بعد میں ادا کردیا جاتا ہے، لیکن گھر یا کمرہ وہ بسا اوقات ادا نہیں کیا جاتا، پوچھنا یہ ہے کہ :
1۔جو گھر یا مکان کا کمرہ مہر میں طے کیا گیاہو، اگر اس کی ادائیگی کرنی ہوتو کیا اس کی قیمت ادا کرسکتے ہیں؟
2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ قیمت کی ادائیگی کس کے ذمہ ہوگی؟ آیا والدین کے ذمہ ہوگی یا شوہر کے ذمہ ہوگی؟
1۔صورتِ مسئولہ میں نکاح کے موقع پر مہر طے کرتے ہوئے اگر متعین گھر یا متعین کمرہ طے کیا گیا ہو، تو وہی متعین گھر یا کمرہ دینا ضروری ہوگا، اور اگر متعین گھر یا کمرہ طے نہ کیا گیا ہو، بلکہ مطلقاً گھر یا کمرہ طے کیا ہو، تو اس صورت میں نکاح کے وقت جہاں رہائش تھی وہاں کا متوسط گھر یا کمرہ دینا ضروری ہوگا، بہر صورت بیوی اگر متعین گھر یا کمرہ کی قیمت لینے پر راضی ہو، تو ادائیگی کے وقت کی قیمت ادا کرناشوہر کے لیے ضروری ہوگا، اسی طرح غیر متعین گھر مہر ہونے کی صورت میں متوسط گھر کی قیمت بیوی کی رضامندی پر دی جاسکتی ہے۔
2۔مہر کا تعلق نکاح سے ہے،اور یہ عورت کا حق ہے ،جو نکاح کی وجہ سے شوہر کے ذمے مہر کی ادائیگی واجب ہوتی ہے، لہذا مذکورہ صورت میں قیمت کی ادائیگی شوہر ہی کے ذمہ لازم ہے،والدین کے ذمہ اس کی ادائیگی نہیں ہوگی، البتہ والدین اگر بیٹے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، اور یہ والدین کی جانب سے احسان ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وصح ضمان الولي مهرها ولو) المرأة (صغيرة) ولو عاقدا لأنه سفير، ... (ولا يطالب الأب بمهر ابنه الصغير الفقير) أما الغني فيطالب أبوه بالدفع من مال ابنه لا من مال نفسه (إذا زوجه امرأة إلا إذا ضمنه) على المعتمد
(قوله وصح ضمان الولي مهرها) أي سواء ولي الزوج أو الزوجة صغيرين كانا أو كبيرين، أما ضمان ولي الكبير منهما فظاهر لأنه كالأجنبي. ثم إن كان بأمره رجع وإلا لا.وأما ولي الصغيرين فلأنه سفير ومعبر، فإذا مات كان لها أن ترجع في تركته ولباقي الورثة الرجوع في نصيب الصغير خلافا لزفر لأن الكفالة صدرت بأمر معتبر من المكفول عنه لثبوت ولاية الأب عليه، فإذن الأب إذن منه معتبر، وإقدامه على الكفالة دلالة ذلك من جهته نهر عن الفتح ... (قوله بمهر ابنه) أي مهر زوجة ابنه أو المهر الواجب على ابنه (قوله إذا زوجه امرأة) مرتبط بقوله ولا يطالب الأب إلخ لأن المهر مال يلزمه ذمة الزوج ولا يلزم الأب بالعقد، إذ لو لزمه لما أفاد الضمان شيئا بحر"
(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص:141/140، ط: سعید)
وفيه ايضا:
"(وجاز) (التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين)كمكيل (أو لا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر
(قوله: ولو بعوض) كأن اشترى البائع من المشتري شيئا بالثمن الذي له عليه ...(قوله: وكذا الحكم في كل دين) أي يجوز التصرف فيه قبل قبضه، لكن بشرط أن يكون تمليكا ممن عليه بعوض أو بدونه كما علمت ... (قوله: كمهر إلخ) وكذا القرض."
(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، ج:5، ص: 152/153، ط: سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"فالحاصل أن الاعتبار ليوم العقد في حق التسمية وليوم القبض في حق دخوله في ضمانها."
(باب المھر، ج:3، ص:153، ط:دار الکتاب الإسلامي)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"لو تزوجها على ثوب أو مكيل أو موزون وقيمته يوم العقد عشرة فصارت يوم القبض أقل ليس لها الرد وفي العكس لها ما نقص"
(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الأول في بيان مقدار المهر، ج: 1، ص:302، ط: دارالفکر بیروت)
وفيه ايضا:
"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."
(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيمايتاكد به المهر، ج:1، ص:303، ط: دارالفکر بیروت)
وفيه ايضا:
"وإن حطت عن مهرها صح الحط، كذا في الهداية. ولا بد في صحة حطها من الرضا حتى لو كانت مكرهة لم يصح ومن أن تكون مريضة مرض الموت هكذا في البحر الرائق."
(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل السابع في الزيادة في المهر والحط عنه فيما يزيد وينقص، ج:1، ص:313، ط: دار الفكر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608100628
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن