عقدِ نکاح کے وقت حقِ مہر مکان کا 1/4 حصہ پورے حقِ مہر ایک لاکھ روپے معجل کے عوض طے کیا گیا۔ لیکن طلاق کے بعد شوہر صرف اور صرف ایک لاکھ روپے دینے پر رضا مند ہے، جب کہ بیوی والے ،مکان کا 1/4 حصہ یا اس کی موجودہ قیمت لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دوران عقد جان بوجھ کر مکان یا زمین کی قیمت کم لکھی جاتی ہے، کیوں کہ زمین یا مکان کے انتقال کے وقت جتنی زیادہ قیمت ہوگی اتنی زیادہ فیس پٹوار خانے میں جمع کی جاتی ہے، مثال کے طور پر اگر 1/4 مکان کی قیمت پچاس لاکھ ہو تو ہر ایک لاکھ پر چار ہزار فیس ہے، اس طرح اصل قیمت کے لحاظ سے انتقال کی فیس دو لاکھ بنتی ہے، لیکن لوگ اس جھنجھٹ سے بچنے کے لیے مکان کی قیمت مثلا ایک لاکھ لکھ دیتے ہیں، تاکہ فیس صرف چار ہزار بھرنی پڑے۔ لیکن جب بیوی کو طلاق ہوجاتی ہے تو خاوند صرف ایک لاکھ دیتا ہے، مکان یا اس کی موجودہ قیمت نہیں دیتا۔
اب سوال یہ ہے کہ ازروئے شرع بیوی کو مکان 1/4 حصہ یا اس کی موجودہ قیمت ملے گی، یا پھر خاوند کی بات مان کر صرف ایک لاکھ روپے ہی حق مہر ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں جب مہر میں رقم کے بدلے میں متعین مکان یا کسی متعین مکان کا چوتھائی حصہ مقرر کردیا گیا اور فریقین نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا، تو شادی ہوجانے پر عورت مکان کے مقررہ حصے کی مالک شمار ہوگی ، اور اگر اس صورت میں میاں بیوی میں طلاق واقع ہوجاتی ہے تو عورت مکان کے مقررہ حصے(جیسے سوال کے مطابق 1/4 حصہ ) کی ہی حق دار ہے ، اور اگر اس کے بدلے باہمی رضامندی سے قیمت دینا چاہیں تواس چوتھائی حصے کی موجودہ قیمت ادا کرنی ہوگی۔الغرض بوقت نکاح جو رقم مقرر کرکے پھر رقم کے بدلے میں مکان کا حصہ دینا طے ہوچکا تھا تو اب صرف وہی مقرر کردہ رقم دینے سے حق مہر ادا نہ ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"المرأة تملك المهر قبل القبض ملكا تاما إذ الملك نوعان: ملك رقبة، وملك يد، وهو ملك التصرف، ولا شك أن ملك الرقبة ثابت لها قبل القبض، وكذلك ملك التصرف؛ لأنها تملك التصرف في المهر قبل القبض من كل وجه."
(كتاب النكاح، فصل في جواز و افساد نكاح اهل الذمة، ج:2، ص:313، ط:دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"فالحاصل أن الاعتبار ليوم العقد في حق التسمية وليوم القبض في حق دخوله في ضمانها."
(باب المہر،ج:3،ص:153،ط:دار الکتاب الإسلامي)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :
"إن الديون تقضى بأمثالها؛ لأن قبض نفس الدين غير متصور استيفاؤه، لأنه وصف ثابت في ذمة من عليه الدين، فكان استيفاء الدين عبارة عن نوع مبادلة، وهو مبادلة ما يأخذه عيناً بما في ذمة المدين."
(الفصل التاسع في الوكالة ،ج:5 ،ص:4088 ،ط:دارالفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512101629
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن