ماہ رمضان میں حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا حکم کیا ہے؟ دلیل کے ساتھ وضاحت کر دیجئے۔
حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کے روزے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر ان کو ظنِ غالب ہو کہ روزہ رکھنے کی صورت میں خود اس کی جان کو یا بچے کی صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے، یا کوئی دیندار ، ماہرطبیب یہ کہے کہ عورت یا حمل کو نقصان ہوگا یا شیر خوار بچے کو نقصان ہوگا تو اس صورت میں حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ، اس صورت میں ان قضاشدہ روزوں کی بعد میں قضالازم ہے ، کفارہ نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما حبل المرأة وإرضاعها: إذا خافتا الضرر بولدهما فمرخص لقوله تعالى "فمن كان منكم مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر"وقد بينا أنه ليس المراد عين المرض، فإن المريض الذي لا يضره الصوم ليس له أن يفطر فكان ذكر المرض كناية عن أمر يضر الصوم معه.وقد وجد ههنا فيدخلان تحت رخصة الإفطار.وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "يفطر المريض، والحبلى إذا خافت أن تضع ولدها، والمرضع إذا خافت الفساد على ولدها" .وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "إن الله وضع عن المسافر شطر الصلاة وعن الحبلى، والمرضع الصيام" وعليهما القضاء ولا فدية عليهما عندنا."
(كتاب الصوم، فصل حكم فساد الصوم، ج: 2، ص: 97، ط: دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144608102324
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن