ہم چار بھائی اور ایک بہن ہیں ،میرے والد نے اپنی زندگی میں ہی تمام بھائی ،بہنوں کو میراث میں سے حصہ دے دیا تھا ،والدہ کو بھی(بیوی) حصہ دے دیا تھا ،میرے والد صاحب نے ایک زمین اپنے لئے رکھی اور یہ کہا کہ میرے مرنے کے بعد میرے کفن دفن وغیرہ کا انتظام اسی سے کرنا ،باقی جورقم بچے گی وہ تمام ورثاء میں تقسیم کردینا ،پھر میرے والد کا انتقال ہوگیا،انہوں نے انتقال سے پہلے ایک بیٹے کو اس زمین کی ذمہ داری دی تھی کہ تم اس زمین کی دیکھ بھال کرتے رہو،اور میرے مرنے کے بعد اس کو تقسیم کردینا(تمام ذمہ داری اس بھائی کو سونپ دی تھی)،میرے والد کے انتقال کے بعد کسی کا ان پر قرض نکل آیا تو ہم تمام ورثاء نے اس بھائی سے کہا کہ اس زمین کو بیچ کر قرضہ اداکرو،مگر وہ ٹال مٹول کرتارہا،پھر ہمارے علاقے میں 2022ء میں سیلاب آیا،وہ زمین بھی سیلاب سے متاثر ہوگئی، اب اس جگہ کی کوئی خاص قیمت نہیں رہی ،اب میرا بھائی ہمیں کہتاہے کہ اس قرضہ کو تمام ورثاء اداکریں گے ،حالانکہ ہم لوگوں نے اس کو کئی بار کہا تھا کہ اس زمین کو بیچ دو، مگر وہ ٹال مٹو ل کرتارہا،والد نے زمین میں تصرف کرنے کی ولایت بھائی کو دی تھی ، اس وجہ سے ہم اس میں تصرف نہیں کرسکتے ،اب سوال یہ ہے کہ قرض کی رقم تمام ورثاء پر لازم ہوگی یا صرف اس بھائی پر لازم ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں زمین کی قیمت سائل کے بھائی نے نہیں گرائی ، بلکہ آسمانی آفت سے اس کی قیمت گری ہے تو سائل کا بھائی اس کاضامن نہیں ،لہذا زمین کی موجودہ قیمت سے اگر قرضہ مکمل ادا ہوجائے تو بہتر اور اگر اس کے بعد بھی کچھ قرضہ رہ جائے تو قرض دار کو چاہئے کہ مرحوم کو معاف کردے اور یہ عمل بہت ہی قابل اجر وثواب ہوگا یا آخرت پر موقوف رکھے (مرحوم سے قیامت میں اپنا قرضہ وصول کرے) ،قرضدار زبردستی ورثاء سے مطالبہ نہیں کرسکتا،ہاں اگر تمام ورثاءیا بعض باہمی رضامندی سے اپنی طرف سے بقیہ قرض اداکردیں تو مرحوم والدکے ذمہ سے قرضہ ختم ہوجائے گا۔
الفتاوی الھندیۃ میں ہے:
"ثم بالدين وأنه لا يخلو إما أن يكون الكل ديون الصحة أو ديون المرض، أو كان البعض دين الصحة والبعض دين المرض، فإن كان الكل ديون الصحة أو ديون المرض فالكل سواء لا يقدم البعض على البعض، وإن كان البعض دين الصحة والبعض دين المرض يقدم دين الصحة إذا كان دين المرض ثبت بإقرار المريض، وأما ما ثبت بالبينة أو بالمعاينة فهو ودين الصحة سواء، كذا في المحيط."
(کتاب الفرائض، الباب الثانی، 6/ 447، ط: دار الفکر)
الفقه الإسلامی وأدلته میں ہے:
"قضاء ديونه: ثم بعد التجهيز تقضى ديون الميت من جميع ماله الباقي بعد التجهيز، والسبب في تأخيره عن الكفن وتوابعه أنه لباسه بعد وفاته كلباسه في حياته؛ إذ لا يباع ماعلى المديون من ثيابه مع قدرته على الكسب، ويقدم على الوصية."
(الباب السادس، الفصل السادس، الحقوق المتعلقة بالتركة فهي قسمان، الثانی، قضاءدیونه، 10/ 7727، ط:دار الفکر)
الھدایه شرح بدایة المبتدی میں ہے:
"قال: "الوديعة أمانة في يد المودع إذا هلكت لم يضمنها" لقوله عليه الصلاة والسلام: "ليس على المستعير غير المغل ضمان ولا على المستودع غير المغل ضمان" ولأن بالناس حاجة إلى الاستيداع، فلو ضمناه يمتنع الناس عن قبول الودائع فتتعطل مصالحهم."
(کتاب الودیعة، تعریفھا وحالتھا، 3/ 213، ط: دار إحیاء التراث العربی )
شرح المجلة میں ہے:
"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."
(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان احكام الوكالة، المادة 1463، 3/ 561، ط:دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100348
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن