بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

محض بیوی کے نام سے پلاٹ بک کروانے سے بیوی اس پلاٹ کی مالک نہیں ہوئی


سوال

میں نے آج سے 17 سال قبل  کو آپریٹیو  ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک 200 گز کے پلاٹ کی اپنی بیوی کی حیاتی میں ان کے نام سے بکنگ کرائی تھی، بکنگ کی رقم مبلغ 8000 روپے میں نے ادا کی تھی، میری بیوی ہاؤس وائف (گھریلو خاتون) تھی، جس کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، گھر کے جملہ اخراجات میں برداشت کرتا  تھا، میری بیوی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی ان کا علاج معالجہ اور دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی شادی کے اخراجات بھی میں نے برداشت کیے ؛کیوں کہ میرا  کاروبار اس وقت عروج پر تھا ، میں نے مذکورہ پلاٹ کی بکنگ صرف بیوی کے نام سے کرائی تھی اور زندگی میں پلاٹ کا مالک نہیں بنایا تھا، اور نہ ہی قبضہ دیا تھا۔ میری عمر اس وقت 74 سال ہے، اور میری آمدنی کا ذریعہ صرف والد کی طرف سے ملنے والی جائیداد کے کرایہ ہے، میں ایک ٹانگ سے معذور بھی ہوں، آپریشن کی وجہ سے آسانی سے چل پھر بھی نہیں سکتا۔ میں مذکورہ پلاٹ فروخت کرنا چاہتا ہوں ،مگر میرا بڑا بیٹا  کہتا ہے کہ یہ والدہ کا پلاٹ تھا اور اس میں سے مجھے حصہ دیا جائے،جب کہ میں نے صرف بیوی کے نام سے پلاٹ کی بکنگ کرائی تھی، جس کی رقم بھی میں نے ادا کی تھی، زندگی میں ان کو مالک نہیں بنایا تھا، صرف ان کے نام خریدا تھا، اب آیا بیوی کے نام سے بکنگ کرانے سے وہ اس کی مالک ہوگئی ہے یا میری ملکیت ہے اور میں اس کو فروخت کرسکتا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب  سائل نے  مذکورہ پلاٹ صرف بیوی کے نام پر خریدا تھا،اسے  مالک بنانا مقصد نہیں تھا اور نہ ہی قبضہ دیا تھا، تو شرعاً یہ پلاٹ سائل ہی کی ملکیت میں ہے،صرف بیوی کے نام پر لینے سے یہ پلاٹ  بیوی کی ملکیت میں داخل نہیں ہوا،  لہذا سائل کے لیے اس پلاٹ کو فروخت کرنا جائز ہے، اور سائل کے بڑے بیٹے کا یہ کہنا کہ والدہ کی میراث ہے اور اس میں سے مجھے حصہ دیا جائے شرعاً درست نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"لو قال: جعلته باسمك، لايكون هبةً؛ و لهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرمًا إن قال: جعلته لابني، يكون هبةً، و إن قال: باسم ابني، لايكون هبةً."

(کتاب الہبۃ، ص:689، ج:5، ط:سعید)

امداد الفتاوی میں ہے:

"کسی کے نام جائیداد خریدنے کی حقیقت یہ ہے کہ اس کو ہبہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور ہبہ کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ موہوب وقت ہبہ ملکِ واہب میں ہو، اور ظاہر ہے کہ ملک بعد اشتراء کے ثابت ہوگی، سو اس سے بعد کوئی عقد دال علی التملیک ہونا چاہیے، اور بدون اس کے وہ مشتری لہ مالک نہ ہوگا بلکہ وہ بدستور ملک مشتری کی رہے گی۔ "

(کتاب البیوع، ص/37، ج/3، ط/مکتبہ دار العلوم)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144305100479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں