بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایک لڑکے نے دوسری شادی کی ،اس نے پہلے شادی کررکھی تھی،پھر اپنے ماموں کی بیٹی سے دوسری شادی کی ،شادی کو تقریبًا تین  سال  ہونے  والے ہیں ، مگروہ  اپنی زوجہ (ماموں کی بیٹی) کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتا،پہلے کہاتھا کہ 2 دن ایک کے ساتھ رہوں گا 2 دن دوسری کے ساتھ،مگر اب وہ پہلی بیوی کے ساتھ رہتا ہےجس سے اس کا ایک بچہ  بھی ہے،وہ کہتا ہے کہ مجھے ماموں کی بیٹی پسند نہیں ہے، میں نہیں  رہنا چاہتا  اس کے ساتھ،جب کہ  لڑکی بھی اب شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اورشوہر بھی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے،اس معاملہ میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بلاوجہ طلاق دینا شرعًاپسندیدہ نہیں ہے، مباح چیزوں میں سے سب  سے ناپسندیدہ چیز اللہ کے ہاں طلاق ہے،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں خاندان کے بڑے اور بااثر لوگوں کو چاہیے کہ دونوں زوجین کے درمیان صلح صفائی کروائیں،حتی الامکان نباہ کی کوشش  کروائیں  کہ  کسی طرح گھر خراب نہ ہو،دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کریں ۔

پھر بھی  اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہو اورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کو اس کی ایسی پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق رجعی دے دی جائے جس  میں شوہر نے بیوی سے ہمبستری نہ کی ہو،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندر اگر شوہر  نے رجوع  کرلیا تو  نکاح قائم رہے گا،  وگرنہ بعد از عدت  نکاح ختم  ہوجائے گا جس کے بعد عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا  جائز ہوگا۔

فتاوی شامی  میں ہے:

'وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً ﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: « أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق»۔ قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ."  

(کتاب الطلاق،3 / 228) ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144601101955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں