بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے کے الفاظ لکھنے کا حکم


سوال

میں نے اپنے دوست کو لکھ کر دیا کہ ”میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے“، تو ان الفاظ سےطلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟جب کہ طلاق کے یہ الفاظ ایک ہی بار لکھے تھے۔

جواب

واضح رہے کہ جس طرح زبان سے طلاق کےالفاظ بولنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح طلاق کے الفاظ لکھنے اور اقرار کرنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے ایک بار ”میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے“ کے الفاظ لکھنے سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے، اب عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک کا وقت)گزرنے سے پہلے پہلے  رجوع کا حق حاصل ہے، اگر عدت کے اندر رجوع کر لیا تو نکاح برقرار رہے گا، وگرنہ بعد از عدت نکاح ختم ہوجائے گا، پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا، اور رجوع یا تجدیدِ نکاح دونوں صورتوں میں سائل کو آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)۔۔۔۔۔(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح،۔۔۔۔(واحدة رجعيةوإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر۔۔۔۔(أو لم ينو شيئا)."

(کتاب الطلاق، باب الصریح، 3/ 247، ط: سعید)

وفیه أيضا:

"[فروع] كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة."

(کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابة، 3/ 246، ط:سعید)

وفیه أيضا:

"وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....بعد الدخول حقيقة، أو حكما)....ثلاث حيض كوامل)....(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر)....أو بلغت بالسن)....ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر ....(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدۃ، 3/ 504، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"باب الرجعة۔۔۔۔وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة(بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس ولو منها اختلاسا، أو نائما، أو مكرها أو مجنونا، أو معتوها إن صدقها هو أو ورثته بعد موته جوهرة ورجعة المجنون بالفعل بزازية.

(قوله: كمس) أي بشهوة كما في المنح، ويفيده قوله: بما يوجب حرمة المصاهرة ح. قال في البحر: ودخل الوطء، والتقبيل بشهوة على أي موضع كان، فما أو خدا، أو ذقنا، أو جبهة، أو رأسا، والمس بلا حائل أو بحائل يجد الحرارة معه بشهوة ، والنظر إلى داخل الفرج بشهوة بأن كانت متكئة، وخرج ما إذا كانت هذه الأفعال بغير شهوة."

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 3/ 397، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں