کافی عرصہ سے میری بیوی مجھے بہت تنگ کررہی ہے،ایک دن میں نے غصہ میں ڈرانے کے لیے کہا کہ:"میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور میری طرف سے یہ ایک ہوگئی ہے" اس کے بعد ہم ایک ساتھ رہنے لگے،پھر کچھ عرصے بعد میں نے غصے میں بیوی کو کہا کہ "تم کیا چاہتی ہو؟ تم یہ روز روز کپڑے باندھ کر کیوں چلی جاتی ہو؟ تم صاف صاف بتا دوں،تم کیا چاہتی ہو؟تمہیں طلاق چاہیے؟ طلاق دوں تمہیں؟" یہی جملہ آج صبح بھی میں نے اس کو کہا،اب میری بیوی کہتی ہے تم نے تین طلاقیں دےد ی ہے، مذکورہ صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی کو جو یہ الفاظ کہے تھے کہ ’’ میں تمہیں طلاق دے دوں گا، اور میری طرف سے یہ ایک ہوگئی ہے‘‘ اس کے پہلے جملہ سے اگرچہ کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم دوسرے جملہ " میری طرف سے یہ ایک ہوگئی ہے" سے بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی تھی، اور پس اگر سائل نے عدت کے دوران قولاً یا عملاً (صحبت کرکے) بیوی سے رجوع کرلیا ہو،تو رشتہ بدستور قائم رہے گا، آئندہ کے لیے سائل کے پاس صرف دو طلاقوں کاحق ہوگا۔
نیز کچھ عرصہ بعد سائل نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو جو یہ الفاظ کہے کہ ’’تمہیں طلاق چاہیے؟ طلاق دوں تمہیں‘‘ تو اگر واقعۃ یہ ہی کہا تھا تو ان الفاظ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،لہذا مذکورہ واقعہ کے بعد بیوی کا یہ کہنا کہ ’’ تم نے تین طلاقیں دے دی ہیں‘‘ ازروئے شرع درست نہیں، سائل کا اپنی بیوی سے نکاح برقرار ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي."
(كتاب الطلاق، الباب الأول، 348/1، ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولوأقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة."
(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، 236/3، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح.
(قوله وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد،وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر. قلت: ومنه في عرف زماننا: تكوني طالقا، ومنه: خذي طلاقك فقالت أخذت، فقد صرح الوقوع به بلا اشتراط نية كما في الفتح."
(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 248/3، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100389
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن