ہماری مسجد کی پہلی صف میں ایک نمازی ہے،جو مجذوب ہے،وہ نماز میں امام کے عمل کے خلاف عمل کرتا ہے،یعنی امام قیام میں ہے تو وہ رکوع میں ہوتا ہے، اس طرح جب امام ا لتحیات میں ہوں ، تو وہ مجذوب صحیح بول نہیں پاتا،لیکن آواز نکالتا ہے،جس کی وجہ سے دیگر مقتدیوں کی توجہ اور دھیان بٹتا ہے اورپریشانی ہوتی ہے،اب وہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کےلیے ضد کرتاہے۔
توکیا اسے زبردستی پچھلی صف میں کیا جاسکتاہےیا اسے اپنی حالت پر رہنے دیں؟
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ مجذوب آدمی دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل و تشویش کا باعث ہو، تو اسے پہلی صف میں نہ کھڑا کیا جائے، بلکہ مسجد کے کسی کونے میں کھڑا کیا جائے، تاکہ نماز میں خلل پیدا نہ ہو۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره.
(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري مرفوعًا: «جنّبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسلّ سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر»، بحر".
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة، ج: 1، ص: 656، ط: سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: و يصف الرجال ثم الصبيان ثم النساء)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليليني منكم أولو الأحلام والنهى ... و لم أر صريحًا حكم ما إذا صلى ومعه رجل و صبيّ، و إن كان داخلاً تحت قوله: "و الاثنان خلفه" و ظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل و الصبي و يكونان خلفه؛ فإنه قال: فصففت أنا و اليتيم وراءه، و العجوز من ورائنا، و يقتضي أيضًا أن الصبيّ الواحد لايكون منفردًا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم، و أن محلّ هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان".
(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 3، ص: 416، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: ذكره في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال، انتهى".
(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج: 1، ص: 571، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608102124
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن