بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مکان بیوی کے نام کرنے سے ہبہ کا حکم


سوال

میں نے 1999 میں 400 گز کا ایک سنگل اسٹوری مکان خریدا، یہ مکان میں نے اپنی ذاتی پیسوں سے خریدا تھا،اور مکان رجسٹرکرواتے وقت کا غذات پر بیوی کا نام درج کروایا تھا، صرف نام کروایا تھا،قبضہ نہیں دیا تھا، نہ ہی مکان میں منتقل ہونے سے پہلے میں نے بیوی کو یہ کہا تھا (جب مکان خالی تھا) کہ یہ آپ کا ہے، مالکانہ تصرف نہیں دیا تھا، صرف نام کروایا تھا، بعد ازاں میں نے اپنے پیسوں سے اپنے مطابق مکان تعمیر کروایا،اور اس میں رہنے لگے ،پھر بعد میں اس کی مزید تعمیر کروائی، اب اس کی دو منزلیں ہیں، 2020 میں میری بیوی کا انتقال ہوا، اور تاحال میں اس مکان میں رہائش پذیر ہوں ۔

(1)تو مجھے پوچھنا یہ ہے کہ یہ مکان میری بیوی کی ملکیت شمار ہوگی یا میری ؟

(2)میری بیوی اور میرے درمیان یہ باتیں ہوئی تھی کہ ہمارے تین بیٹے ہیں،اور تینوں اس مکان میں ایک ایک منزل پر رہیں ،جس کو رہنا ہے وہ رہیں مگر وہ یہ مکان بیچ نہیں سکتے ،ان کو مکان بیچنے کا اختیار نہیں ہوگا،تینوں بیٹے اس میں رہے تھے، بعد ازاں دو بیٹے اس گھر سے شفٹ ہو گئے، جبکہ منجھلا بیٹھا دوسری منزل میں تاحال رہائش پذیر ہے،اور اس کا کہنا ہے کہ گھر میری ماں کا ہے،میری ماں نے مجھے دیا ہے،حالانکہ میری بیوی نے دوسرے بیٹوں کی طرح اسے بھی رہنے کے لیے ہی دیا تھا،گفٹ یا اس کا مالک نہیں بنایا تھا، میری بیوی نے یہ کہا تھا، کہ جس کو رہنا ہے رہیں اسے کوئی بیچ نہیں سکتا،یہ زبانی بات تھی پیپر ورک نہیں ہوا تھا،کیا صرف مذکور ہ بات کہنے سے مکان بیٹوں کا ہوا یا نہیں؟

جواب

 واضح رہےکہ ہبہ (گفٹ) میں ہبہ شدہ چیز پرموہوب لہٗ (جس کو ہبہ کیا گیاہے)  کی ملکیت ثابت ہونے کےلیے ضروری ہے کہ وہ چیز قبضہ اور تمام مالکانہ حقوق و تصرفات کے ساتھ موہوب لہٗ کے حوالہ کی جائے۔ اگر موہوب لہٗ کو اس پر قبضہ اور مالکانہ حقوق و تصرفات نہ دیےگئے ہو ں تو وہ چیز واہب(ہبہ کرنے والے ) ہی کی ملکیت میں رہتی ہے، محض نام کرنے سے موہوب لہ اس کا مالک نہیں بنتا۔

(1) صورت مسئولہ میں سائل نے مکان باقاعدہ طور پر بیوی کے قبضہ اور تحویل میں نہیں دیا تھا، بلکہ مکان صرف بیوی کےنام کروایاتھا،لہٰذامکان سائل ہی کی ملکیت میں بدستور برقرار ہے، محض بیوی کے نام کرنےسے بیوی اس مکان کی مالک نہیں ہوئی۔

(2) مذکورہ مکان چونکہ سائل کی ملکیت میں بدستور برقرار ہے،سائل کی بیوی نےبیٹوں کو صرف رہائش کےلیے مکان دیاتھا،اگربالفرض بیٹے کومکان گفٹ بھی کیا ہو،تب بھی بیٹوں کی ملکیت نہیں ہوگی؛کیونکہ مکان سائل کی ملکیت سے نکلا ہی نہیں ہے،توسائل کی بیوی کا گفٹ کرنا ہی صحیح نہیں ہوا۔

در مختار میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها."

(الدرالمختار،کتاب الھبۃ،ج5،ص590،ط سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون  متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب."

 (كتاب الهبة، ج:4، ص:374، ط:المكتبة الرشيديه كوئته)

البحر الرائق میں ہے :

"(قوله وجعلته لك) لأن اللام للتمليك ولهذا لو قال هذه الأمة لك كان هبة ولو قال هي لك حلال لا تكون هبة إلا أن يكون قبله كلام يستدل به على أنه أراد به الهبة كذا في الخلاصة قيد بقوله لك لأنه لو قال جعلته باسمك لا يكون هبة ولهذا قال في الخلاصة لو غرس لابنه كرما إن قال جعلته لابني تكون هبة وإن قال باسم ابني لا تكون هبة ولو قال أغرس باسم ابني فالأمر متردد وهو إلى الصحة أقرب اهـ."

(كتاب الهبة، مؤنة رد الوديعة علي المالك، ج:7، ص:285، ط:دارالكتاب الإسلامي القاهرة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608101337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں