میری والدہ کا بفرزون میں ایک مکان تھا، جس کو ہم بہن بھائیوں نے2021 میں 1 کروڑ 34 لاکھ میں بیچا اور مزید 66لاکھ روپے ملا کر 2 کروڑ کا دوسرا مکان لیا،66لاکھ میں سے 13لاکھ والدہ نے،43 لاکھ میں نے اور10 لاکھ ایک بہن نے ملائے تھے،دوسری بہن نے کچھ بھی رقم نہیں دی تھی،مکان والدہ ہی کے نام ہے،پھر2023 میں والدہ کا انتقال ہوگیا،اس وقت ان کے ورثاء میں ایک بیٹا(سائل) اور دوبیٹیاں تھیں،میرےبڑے بھائی(مرحومہ والدہ کا دوسرابیٹا) کا انتقال 2020 میں والدہ سے تین سال پہلے ہوگیا تھا، مرحوم بھائی کا ایک بیٹا اور بیٹی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس مکان کو تقسیم کرتے وقت کس کا کتنا حصہ ہوگا،اور مرحوم بھائی کے بیٹا اور بیٹی کا حصہ ہوگا یا نہیں؟
نوٹ:سائل(مرحومہ کا بیٹا)نے مکان کی خریداری میں43 لاکھ روپے دیتےوقت کسی قسم کی کوئی صراحت نہیں کی تھی،جب کہ سائل کی بہن(مرحومہ کی بیٹی)نے قرض کی صراحت کے ساتھ 10 لاکھ روپے دیےتھے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ مکان مکمل طورپر والدہ کاترکہ شمار ہوگااور ان کے ورثاء میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا،اس لیے کہ سائل نےمذکورہ مکان کی خریداری میں جو رقم(43 لاکھ) والدہ کوقرض و شراکت کی صراحت کے بغیر دی تھی ،وہ سائل کی طرف سےوالدہ پر تبرع و احسان شمار ہوگا،جس کا سائل کو ثواب ملےگا،البتہ مرحومہ کی بیٹی نےجو رقم(10 لاکھ روپے) بطورِقرض دی تھی،وہ رقم مرحومہ کے ترکہ کو تقسیم کرنے سے پہلےترکہ میں سے ادا کی جائے گی۔
باقی مرحومہ (سائل کی والدہ) کے ترکہ کو تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےترکہ میں سے ان کے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالے جائیں،پھر مرحومہ کے ذمہ جو قرض ہے اس کو ادا کیا جائے،پھر اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو بقیہ ترکہ کےایک تہائی میں سے نافذ کیا جائے،اس کے بعد باقی ترکہ کو4 حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ کے بیٹے(سائل) کو دو حصے اور مرحومہ کی دونوں بیٹیوں کو ایک ایک حصہ ملے گا،نیز مرحومہ کے جس بیٹے کا انتقال مرحومہ کی زندگی میں ہوگیا تھا اس کی اولاد (بیٹا ،بیٹی)کا مرحومہ کی میراث میں شرعاً کوئی حصہ نہیں۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:سائل کی والدہ مرحومہ:4
بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 1 | 1 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 50 فیصد مرحومہ کے بیٹے(سائل)کو،اور25فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(کتاب المداينات، ج:2، ص:226، ط:دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101994
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن