بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مکان کسی کے صرف نام کرنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی


سوال

میں نے پندرہ سال پہلے اپنے پیسوں سے ایک مکان خریدا تھا، اور بیوی کے نام کیا تھا، نہ تو اپنی بیوی کو تحفے (گفٹ) کے طور پر دیا تھا، اور نہ ہی یہ اس کا حقِ مہر تھا، صرف میں نے یہ اس کے نام پر کیا تھا ،میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ، اب یہ مکان کس کا ہے؟ میری بیوی کا پانچ ماہ پہلے انتقال ہوگیا ہے، اب یہ مکان میرا ہے یا میرے بچوں کا؟، میرے سب بچے بالغ ہیں۔

نوٹ:۔ میری بیوی کو اس کے والدین یا بھائیوں کی طرف سے بھی کوئی حصہ نہیں ملا۔

جواب

واضح رہے کہ مکان صرف دوسرے کے نام کرنے سے شرعاً اس کی ملکیت میں نہیں جاتا، بلکہ ہبہ (گفٹ) کرنے اور قبضہ سمیت دینے سے ملکیت منتقل ہوتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق اس نے مکان اپنی بیوی کو تحفہ (گفٹ) میں نہیں دیا، اورسائل نے اپنے پیسوں سے خریدا ہے، کاغذات میں بیوی کا نام درج کروایا، تو محض کاغذات میں نام درج کروانے سے شرعاً بیوی مکان کی مالک نہیں بنی ،لہٰذا یہ مکان سائل کی اپنی ملکیت ہے، بیوی یا بچوں کی ملکیت  نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وركنها) هو (الإيجاب والقبول)."

(كتاب الهبة، 5/ 688، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وتتم الھبة بالقبض الکامل ولو الموهوب شاغلا لملك الواھب لا مشغولا به۔ والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواھب منع بتمامھا."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:689، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604101629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں