بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مکان محض نام کرنے سے کسی کی ملکیت میں نہیں آتا


سوال

 میں ایک بیوہ عورت ہوں میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے،  مرحوم شوہر نےاپنی ذاتی رقم سےاپنے نام زمین خرید کر مکان تعمیر کیا تھا،  دل اور فالج کا عارضہ لاحق ہونے کی وجہ سے مکان میرے نام منتقل کردیا تاکہ انکے بعد ہم کو رہائشی و دیگر پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے،  نام منتقلی سے لےکر وفات تک کبھی اپنے ذاتی سامان کے ساتھ عملی طور پر بے دخلی اختیار نہیں کی اور گھر کے معاملات سے کبھی لاتعلق نہ ہوئے، بلکہ وفات تک 13 سال روزِ اول کی طرح مکمل اختیار، تصرف اور خودمختاری کے ساتھ رہائش پذیر رہے،  بیان کی گئی تفصیل کے مطابق کیا مکان شرعاً مرحوم کی ملکیت مانا جائے گا اور ترکہ شمار کرکے ورثہ میں تقسیم کرنا لازم ہوگا؟ یا پھر مکان شرعاً میرا ہے اورمیں اپنےاختیار کے مطابق کسی بھی اولاد میں اپنی مرضی و منشا سے تقسیم کرسکتی ہوں اور ذاتی ملکیت پر کس حد تک وصیت کرنے کا شرعی اختیار ہے؟ مکان پرانا اورکمزورحالت کی وجہ سے مکمل عمارت کے بجائے صرف زمین کی قیمت  شمارہورہی ہے، ایسے میں کسی بیٹے کا اپنے حصے کےعلاوہ مکان کی تعمیریا کسی بھی مصرف میں لگی رقم کو قرض شمار کرکے الگ سے واپسی کا مطالبہ شرعاً جائزتسلیم ہوگا جبکہ اسکے پاس پہلے سے کوئی معاہدہ بھی نہ ہو؟ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجئے۔

جواب

واضح رہے کوئی  بھی چیز  محض کسی کے نام کرنے سے اس فرد کی ملکیت میں نہیں آتی ،جب تک کہ وہ چیز مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ نہ دے دی  جائے ۔لہذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے  مرحوم  شوہرنے اپنی ذاتی رقم سے اپنے نام پر زمین خرید کر مکان کی تعمیر کی، بعد ازاں فالج کا عارضہ لاحق ہونے کی وجہ سے یہ مکان سائلہ کے نام کردیا، اگر سائلہ کے نام یہ مکان بطورِ ہبہ بھی کیا تھا لیکن چونکہ بوقتِ ہبہ شوہر خود بھی اس مکان میں رہائش پذیر تھے اور  اپنی وفات تک وہ اسی میں رہائش پذیر رہے  ہیں ، جیساکہ سوال میں مذکور ہے ، توشرعاً  یہ مکان بدستور  شوہر ہی کی ملکیت میں تھا،سائلہ کی ملکیت میں نہیں آیا، لہذا مذکورہ پورا مکان مع زمین شوہرکے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوگا اور ان کے تمام شرعی ورثاء  :ان کی بیوہ ، تین بیٹے اور ایک بیٹی میں شرعی حصص کے حساب سے تقسیم ہوگا۔

چوں کہ آپ  شرعاًاس مکان کی تنہا ملکیت نہیں رکھتیں، اس لیے آپ کا اس مکان کو اپنے کسی ایک بیٹی یا کسی ایک بیٹے کو دینا جائز نہیں ہے،بلکہ آپ کے شوہر کے تمام ورثاء  اپنے اپنے حصے کی مالک ہوگی باقی وصیت میں کوئی بھی شخص غیر وارث کے لیے اپنے کل مال کی ایک تہائی کی وصیت کر سکتا ہے۔ 

   نیز   والد کی وفات کے بعد اس کی متروکہ جائیداد قبل از تقسیم ورثا کی  مشترک ملک ہوتی ہے،  اگر کوئی شریک اپنے شرکاء کی اجازت سے ملک ِمشترک کی مرمت اور تعمیر وغیرہ کے لیے اس پر رقم خرچ کرے تو خرچہ تمام شرکا ء پر ان کے حصص کے بقدر لازم ہوگا،لیکن  اگر کسی شریک نے دیگر شرکاء کی اجازت کے  بغیر ملک مشترک پر خرچہ کیا اور وہ ملک مشترک قابل تقسیم بھی ہو تو یہ اس کی طرف سے تبرع واحسان متصور ہوگا،جس کا وہ اپنے شرکاء سے مطالبہ نہیں کر سکتا۔ 

    لہذا اگر بیٹے نے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر بغیر کسی معاہدہ کے والد کے متروکہ گھر میں اپنے ذاتی خرچہ سے کچھ تعمیر کی ہو تو شرعًا اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ تعمیر پر لگائی گئی رقم کا دیگر ورثاء سے مطالبہ کرے ، بلکہ وہ اس صورت میں متبرع شمار ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4، ص:378، ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط :ایچ ایم سعید)

فتاوى تاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار."

(کتاب الھبة،  فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، ج:14، ص:431، ط: زکریا، دیوبند)

مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا  عمر أحدالشریکین الملك المشترك ففي ذالك احتمالات أربعة ۔۔۔الاحتمال الثاني :إذا عمر أحدالشریکین المال المشترك للشركة بدون إذن الشریك  كان متبرعا۔۔۔۔الاحتمال الرابع:إذا عمر أحدالشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغيرالمستهلكة،مالم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذاالحال يمنع من رفعها."

(الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة، الفصل الاول في تعميرالأموال المشتركة، المادة1309، ص250، ط:كارخانه تجارت كتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں