بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مکان بیوی کے نام نہ کرنے کی وجہ سے اولاد کا باپ کے نافرمان ہوجانا


سوال

میرا ایک ذاتی مکان ہے، میرے بیٹے اس مکان کو میری بیوی کے نام کرانا چاہتے تھے، جس کی میں نے اجازت نہیں دی، تب سے میرے دو بیٹے میرے نافرمان ہوگئے ہیں، مجھے دیکھتے نہیں اور مجھ سے بد زبانی کرتے ہیں، ان کی ماں یعنی میری بیوی بھی ان بیٹوں کے ساتھ ہے، اور بڑا بیٹا تو یہاں تک کہتا ہے کہ زہر کے پیسے دیدوں گا، لیکن دوا لاکر نہیں دوں گا، آپ سے صرف یہ راہ نمائی چاہیے کہ اسلام میں والد کے کیا حقوق ہے؟ اور ایسے نافرمان بیٹوں کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان آپ کی ذاتی ملکیت ہے، اگر آپ بیوی کے نام نہیں کرنا چاہتے تو بیٹوں کے مطالبہ کر پورا کرنا شرعاً ضروری نہیں ہے، بیٹوں کی مذکورہ خواہش پوری نہ ہونے کی وجہ سے باپ کی نافرمانی کرنا، ان سے بد زبانی کرنا بیٹوں کے لیے حرام ہے، اولاد  پر اپنے والدین کی اطاعت و فرمان برداری لازم ہے، البتہ اگر والدین شریعت کے خلاف کسی کام کا حکم دیں، تو اس موقع پر والدین کی اطاعت لازم نہیں، اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں اپنے ایک ہونے اور بندگی کا حکم فرمایا ہے،  وہاں  ہی اللہ تعالیٰ نے والدین کے  ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم بھی دیا ہے،  والدین کو ایذا دینا تو در کنار انہیں خالی ایسا لفظ  جس سے انہیں تکلیف ہو زبان پر لانا بھی ممنوع ہے، نیز والدین بوڑھے ہوجائیں تو ان کے سامنے احتراماً جھکے رہنے کا حکم فرمایا ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ رب العزت کی خوشنودی و ناراضگی والد کی خوشنودی و ناراضگی کے ساتھ وابستہ ہے، یہاں تک کہ متعدد احادیث میں  ہے کہ شب قدر جیسی مبارک رات جس میں اللہ تعالی کی مغفرت، بخشش و رحمت بالکل عام ہوتی ہے سوائے چار آدمیوں کے سب امت مسلمہ کی مغفرت اللہ تعالی فرما دیتا ہے، ان چار قسم کے بد نصیب  لوگوں میں ایک شخص والدین کا نافرمان ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اولاد پر لازم ہے کہ وہ نافرمانی سے باز آئے، اور اپنے والد  کو راضی کرے، ان کے علاج و معالجہ اور ضرورتوں کا خیال رکھے، ورنہ دنیا مکافاتِ عمل کی جگہ ہے والد کے ساتھ بدسلوکی کے نتیجہ میں مستقبل میں جب ان کو ضرورت ہوگی، تو انہیں بھی اپنی اولاد سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا  وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا "(بنی اسرائیل آیة: 23-24)

”اور تیرے رب نے حکم کر دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سوان کو بھی (ہاں) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑ کنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا۔ “ (بیان القرآن)

" وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ ."(سورۂ لقمان، آیت: 15)

”اور اگر تجھ پر دونوں(والدین)اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کا شریک ٹھہرا جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کرنا۔“(بیان القرآن)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: (ووصينا الإنسان بوالديه) هاتان الآيتان اعتراض بين أثناء وصية لقمان. وقيل: إن هذا مما أوصى به لقمان ابنه، أخبر الله به عنه، أي قال لقمان لابنه: لا تشرك بالله ولا تطع في الشرك والديك، فإن الله وصى بهما في طاعتهما مما لا يكون شركا ومعصية لله تعالى."

(سورة لقمان، ج:14، ص:63، ط:دارالكتب المصرية)

تفسسیر مظہری میں ہے:

"(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما لان ترك الامتثال لامر الله والإمتثال لأمرغيره اشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا امرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع."

(سورۃ لقمان،ج7،ص256،ط:مکتبة رشيدیة)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رضي الرب في رضى الوالد وسخط الرب في سخط الوالد»."

”حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پروردگار کی رضامندی و خوشنودی باپ کی رضامندی و خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی و ناراضگی باپ کی ناخوشی و ناراضگی میں ہے۔“

(کتاب الآداب، باب البر والصلہ، جلد: 2، صفحہ:433، رحمانیہ)

شعب الایمان میں ہے:

"‌نظر ‌الله ‌إليهم ‌في ‌هذه ‌الليلة فعفا عنهم وغفر لهم إلا أربعة. فقلنا يا رسول الله من هم؟. قال: رجل مدمن خمر، وعاق لوالديه، وقاطع رحم، ومشاحن.قلنا: يا رسول الله ما المشاحن؟ قال: هو المصارم."

 اللہ تعالی اس رات (شب قدر) میں اپنے بندوں کی طرف نظر ڈالتے ہیں پس سب کو معاف فرمادیتے ہیں سوائے چار قسم کے لوگوں کی معافی نہیں ہوتی۔ ہم نے (صحابہ نے) عرض کیا: وہ لوگ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (۱) شراب کا عادی۔ (۲) اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا۔ (۳) رشتہ داریوں کو قطع کرنے والا اور (۴) دشمنی رکھنے والا۔ صحابہ نے عرض کیا: مشاحن کا کیا مطلب؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو دشمنی سے تعلق قطع کرے، ان چارو کی بخشش نہیں ہوتی۔

(الصیام، التماس لیلۃ القدر...ج:3، ص:336، دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607103024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں