میں نے اپنے ایک دوست کے بچوں کو اپنی کفالت میں لیا ہے، اور اس پوری فیملی کو رہائش کے لیے گھر بنا کر دیا ہے، گھر تو میری ملکیت میں ہی ہے، البتہ میں نے ان کو رہائش کے لیے بلا معاوضہ دیا ہے، مذکورہ فیملی اس قابل نہیں ہے کہ خود اچھا گھر لے سکے، اس لیے میں نے ان کو رہنے کے لیے دیا ہے، اب میں یہ چاہتا ہوں کہ میری وفات کے بعد بھی یہ فيملی اسی مکان میں رہائش رکھے، جب ان کے لیے کسی گھر کا انتظام ہوجائے، اس کے بعد اس گھر کو کسی دینی ادارے کے لیے وقف کردیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ شرعاً کیا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ اس مکان میں یہی بچے رہیں، کوئی اور نہ آئے اور پھر یہ مکان کسی دینی ادارہ کو وقف ہوجائے؟
وضاحت:
سائل غیر شادی شدہ ہیں، والدین حیات نہیں ہیں، بھائی بہن موجود ہیں۔
نیز سائل کی ملکیت میں اس مکان کے علاوہ ایک اور مکان بھی ہے جس میں وہ خود رہائش رکھتے ہیں ، اس کے علاوہ گاڑی اور نقدی بھی ہے۔
صورتِ مسئولہ ميں اگر واقعۃٍ سائل كے پاس اتنی جائے داد ہے كہ ان كے بعد ان كے ورثاء مالی تنگی كا شكار نہیں ہوں گے، تو سائل كے ليے اپنا مذكورہ مكان كسی ادارہ كے ليے وقف كرنا درست ہے، سائل کے وقف کرنے سے مکان شرعاً اس ادارہ کے لیے وقف ہوجائے گا، نیز اس میں دوست كی فيملی كی رهائش کی شرط لگانا بھی یہ درست ہوگا۔ اس كا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سائل جس ادارے کو مکان وقف کرنا چاہتا ہے تو ایک اسٹامپ پیپر پر یہ تحریر کراکے اس پر دو گواہوں کے دستخط کرالے کہ :میں اپنا یہ مکان فلاں ادارہ کے لیے وقف کرتا ہوں، تاہم جب تک فلاں دوست کی فیملی اس گھر میں رہائش پذیر رہے گی، تب تک اس مکان سے وہ لوگ انتفاع حاصل کریں گے، ان کے بعد اس مکان کے تمام امور فلاں ادارہ کے سپرد ہوں گے۔
مذکورہ صورت اختیار کرنے سے وہ مکان وقف ہوکر سائل کی ملکیت سے بھی نکل جائے گا، اور جب تک دوست کی فیملی چاہے تب تک وہ اس گھر میں رہائش رکھے، اس کے بعد اس ادارہ کا ہوجائے گا۔البتہ دوست کی فیملی کا متعین کرنا ضروری ہوگا کہ فلاں شخص کی حیات تک یہ فیملی رہے گی ، اس کے بعد مذکورہ ادارہ کی ملکیت ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وعليه فلو وقف على رجل بعينه عاد بعد موته لورثة الواقف به يفتي فتح."
(کتاب الوقف، ج:4، ص:351، ط: دار الفکر)
المحیط البرہانی میں ہے:
"ولا يحل للواقف الأكل من الوقف إلا وأن يشترطه لنفسه شيئاً من ذلك، دل أنه كان يشترط لنفسه شيئاً، وجه قول محمد: أن معنى التقرب في الوقف بإزالة الملك واشتراط كل الغلة أو بعضها لنفسه يمنع زوال الملك فيمنع صحة الوقف ومشايخ بلخ أخذوا بقول أبي يوسف، وعليه الفتوى ترغيباً للناس في الوقف.
ذكر الفقيه أبو جعفر: إنه لو شرطه لنفسه أن يأكل من الغلة يجوز عند محمد، وكذلك لو شرط الغلة لإمامه فهو كان كإشراطها لنفسه، ولو شرط بعض الغلة لأمهات أولاده في حال وقفه ومن يحدث منهن بعد ذلك، وسمى لكل واحدة منهن كل سنة شيئاً معلوماً في حال حياًته، وبعد وفاته فهو جائز بلا خلاف، أما على قول أبي يوسف فلأنه لو شرط بعض الغلة لنفسه حال حياًته يجوز فهاهنا أولى."
(کتاب الوقف، الفصل الرابع: فيما يتعلق بالشروط في الوقف، ج:6، ص:122، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"في الذخيرة إذا وقف أرضاً أو شيئاً آخر وشرط الكل لنفسه أو شرط البعض لنفسه ما دام حياً وبعده للفقراء قال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: الوقف صحيح ومشايخ بلخ رحمهم الله تعالى أخذوا بقول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وعليه الفتوى ترغيباً للناس في الوقف وهكذا في الصغرى والنصاب، كذا في المضمرات."
(كتاب الوقف، الباب الرابع، ج:2، ص:398، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"شرط الواقف كنص الشارع."
(كتاب الوقف، ج:4، ص:366، ط: دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607100364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن