بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان خرید کر بیوی کے نام کرنے کے بعد اس میں ترکہ کا حکم


سوال

ایک مکان میرے شوہر نے خرید کر میرے نام کیا تھا، لیکن اس مکان پر قبضہ میرے شوہر کا رہا، یعنی میرے شوہر اپنی وفات تک اسی مکان میں رہتے رہے، میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے ورثاء درج ذیل ہیں:ایک بیوہ، دو بیٹے اورسات بیٹیاں، دریافت یہ کرنا ہے کہ  مکان صرف میری ملکیت ہے یا میرے شوہر کے تمام ورثاء کا اس میں حق ہے؟  اگر تمام ورثاء کا اس میں حق ہے تو تقسیم کس طرح ہوگی؟

اگر یہ صرف میری ملکیت ہے  تو میں اپنے  دو بیٹوں اور سات بیٹیوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہوں، اس کا کیا طریقہ ہوگا؟ اگر اس میں میرے شوہر کے تمام ورثاء کا حق ہے تو میری ایک بیٹی کنواری ہے اس  کا کیا حصہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے  کہ   اس چیز  کو گفٹ یا ایسے الفاظ   جو مالک بناکر دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں،  کہہ کر دیا جائے  اور  واہِب (ہبہ کرنے والا)  اس موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، اگر گفٹ کے الفاظ استعمال نہیں کیے، یا  اس چیز کا  مکمل قبضہ نہیں دیا تو  صرف نام کردینے سے  شرعاً  گفٹ  مکمل نہیں ہوتا، بلکہ وہ چیز گفٹ کرنے والے کی ملکیت میں برقرار رهتي هے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگرسائلہ کے شوہر نے مکان خرید کر صرف اس  کے نام کیا تھا، اس مکان کا  قبضہ شوہر  ہی  کے پاس تھا اور اپنی وفات تک وہ اسی میں رہائش پذیر رہے تو شرعاً  یہ مکان بدستور  سائلہ کے شوہر کی ملکیت میں تھا، جو اب ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوگا اور ان کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصص کے حساب سے تقسیم ہوگا۔

سائلہ کے شوہر کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ  ترکہ میں اس کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد ، اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرکے باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو   88 حصوں میں تقسیم کرکے 11 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14،14 حصے  ہر ایک بیٹے کو اور 7،7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت: 88/8

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
1114147777777

 یعنی مثلاً 100 روپے میں سے 12.50روپے مرحوم کی بیوہ کو،  15.90 روپے ہر ایک بیٹے کو اور  7.95 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔ نیز غیر شادی شدہ بیٹی کا حصہ بھی شادی شدہ بیٹیوں کے برابر ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة،ج:5،ص:690، ط :ایچ ایم سعید)

الفتاوى التاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(14/431،  فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، ط: زکریا، دیوبند، دهلی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144304100449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں