میرے والد صاحب نے اپنی حیات میں ایک دکان اور اس کے اوپر ایک مکان اپنے چھوٹے بیٹے کو دیگر بیٹوں اور بیٹیوں کو بتائے بغیر گفٹ (ہبہ) کردیا۔ لیکن قبضہ نہیں دیاتھا۔والد صاحب کی زندگی میں یہ دکان انکے چھوٹےبیٹےچلاتےتھےاور کمائی والد صاحب کے پاس جمع ہوتی تھی اور مکان کرائے پر تھا اور کرایہ بھی والد صاحب کے پاس جمع ہوتاتھا۔ والد صاحب کااس طرح ھبہ کرنادیگر بیٹوں اور بیٹیوں کوبتائے بغیر صحیح ہے یا نہیں؟ اب والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور ہمارا چھوٹا بھائی دعوی کر رہا ہے کہ یہ دکان اور مکان میرا ہے ،اس میں دیگر بہن بھائیوں کو کوئی حق نہیں ہے ۔کیا چھوٹے بھائی یہ دعوی کا کرنا صحیح ہے؟ اب یہ دکان اور مکان صرف میرے چھوٹے بھائی کا ہوگا یا دیگر بہن بھائی بھی اس میں شریک ہوں گے ؟
واضح رہے کہ کسی بھی چیز کو ہبہ (گِفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جا رہا ہے) کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جا رہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے۔ نیزموہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کر دے۔لہذاصورت مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق اگرسائل کے والدنے مذکورہ مکان اور دکان صرف اپنے ایک بیٹےکو گفٹ( ھبہ)کیاتھا لیکن قبضہ ، مالکانہ حقوق اور تصرف کے تمام اختیارات والد کے پاس تا حیات رہےاور دکان کی کمائی آمدنی وغیرہ اورمکان کا کرایہ والد کے پاس جمع ہوتاتھا،تو ایسی صورت میں محض دکان کےچلانےسے اور زبانی طور پر گفٹ کرنے سے سائل کےچھوٹے بھائی اس دکان اور مکان کے شرعا مالک نہیں ہوں گے، بلکہ مذکورہ زمین کے اصل مالک سائل کےوالدہی شمار ہوں گے، لہذا والد کی وفات کے بعد مذکورہ دکان اور مکان مرحوم کے ترکے میں شامل ہونگے، اور ان کو شرعی وارثوں میں حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا ۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."
(كتاب الهبة،الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."
(کتاب الھبة،ج:5،ص:690،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101252
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن