1۔ میں ایک شخص کے پاس ڈرائیوری کرتا ہوں ، وہ ایک کمپنی میں ملازم ہے ، جہاں سے اسے تنخواہ ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ موبائل کی ایک ایپلیکیشن پر جوا کھیلتا ہے ،اور اس سے بھی اس کو آمدنی ہوتی ہے، وہ شخص مجھے اپنی کل آمدنی میں سے تنخواہ دیتا ہے۔
کیا میرے لئے اس شخص سے تنخواہ لینا جائز ہے یا وہ رقم لینا حرام ہے؟ اگر وہ رقم لے لینا حرام ہے تو کیا مجھے وہ اسے واپس کرنی ہوگی یا نہیں ؟
2۔دوسری بات یہ ہے کہ وہ شخص مجھے اپنے گھر سے اس کے گھر تک آنے جانے کا روزانہ کرایہ بھی دیتا ہے، جو دو ہزار روپے بنتا ہے، کیا میرے لئے وہ دو ہزار روپے وصول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یا مجھے کرایہ کی مد میں وصول کردہ رقم بھی اسے لوٹانی ہوگی یا نہیں؟
3۔ تیسری بات یہ ہے کہ میں اس کے ساتھ جوکھانا کھاتا رہا ہوں ، اس کا کیا حکم ہوگا؟
1۔2۔ صورت مسئولہ میں سائل جس شخص کے پاس ڈرائیوری کرتا ہے، اگر اس کی کل آمدنی یا اکثر آمدنی حرام یعنی جوئے کی ہو، تو اس کی نوکری کرکے تنخواہ لینا جائز نہیں ہوگا، تاہم اگر وہ تنخواہ دیتے ہوئے وضاحت کردے کہ میں حلال آمدنی سے تنخواہ دے رہا ہوں، تو جائز ہوگا۔
یہی حکم روزانہ آنے جانے کے لیے دی جانے والی رقم کا ہے، پس سائل کو چاہیئے کہ تنخواہ وصول کرنے سے قبل مالک سے پوچھ لے، یا مذکورہ شخص سے معاہدہ کرلے کہ وہ سائل کو اپنی حلال آمدنی سے تنخواہ دے گا، تاہم اب تک وصول کردہ تنخواہ واپس کرنا لازم نہ ہوگا۔
3۔ مذکورہ شخص کی غالب آمدنی اگر حلال ہو، یا حلال آمدنی سے کھانے کا انتظام کیا ہو، تو ایسا کھانا کھانا جائز ہوگا، اور اگر حرام آمدنی سے کھانے کا انتظام کیا ہو، تو ایسا کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا، تاہم اب تک جو کھانا کھا لیا، اس کی رقم واپس کرنا سائل پر لازم نہیں ہوگا۔
رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:
"(قوله: اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها."
( كتاب البيوع، باب المتفرقات من ابوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ٥ / ٢٣٥، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."
(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ٥ / ٣٤٣، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102131
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن