میڈیکل یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں، جو کہ مخلوط تعلیم ہوتی ہے، جس کی مدت تقریباً پانچ سال ہے، تمام تعلیمی دورانیہ مخلوط نظام کاہوتاہے، میری بیٹی پردے کا خیال کرکے اس طرزِ تعلیم میں تعلیم حاصل کرسکتی ہے یانہیں ؟ میری بیٹی کو میرٹ پر اسکالر شپ ملی ہے، ورنہ داخلہ کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں ، اس بارے میں شرعی راہ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ میڈیکل کی تعلیم خواتین کو دلوانا جائز ہے ، بلکہ بعض وجوہات کی بنا پر یہ تعلیم ضروری بھی ہے، تاکہ خواتین کے امراض کے علاج کے لیے خواتین ڈاکٹر معاشرہ کو میسرہوں، پس مذکورہ معاشرتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایسے تعلیمی ادارے ہونے چاہییں، جہاں مرد وزن کا اختلاط نہ ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں مخلوط نظام تعلیم کا حصہ بننے کی عام حالات میں شرعاً اجازت نہ ہوگی ، البتہ اگر ایسا کوئی تعلیمی ادارہ میسر نہ ہو کہ جہاں خواتین مرد وزن کے اختلاط کے بغیر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرسکیں، تو پھر انتہائی مجبوری کی صورت میں موجودہ تعلیمی اداروں میں سے کسی ادارہ میں مکمل پردے کی پابندی کے ساتھ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش ہوگی، تاہم اس صورت میں مردوں سے ہنسی مذاق یاخلوت میں وقت گزارنے، یامرد کے ساتھ بیٹھنے سے مکمل اجتناب لازم ہوگا۔
قرآن کریم میں ہے:
"قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوْا مِنْ أَبْصٰرِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوجَهُمْ ذٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرُۢ بِمَا يَصْنَعُونَ ٣٠ وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصٰرِهِنَّ...الآية"(سورة النور، الأية:31)
”ترجمہ:آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے بےشک الله تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں(از بیان القرآن)“
سنن الترمذي میں ہے:
"وإنما معنى كراهية الدخول على النساء على نحو ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان»
ترجمہ:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
(کتاب الرضاع، باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات، ج:2، ص:462، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في تبيين المحارم: وأما فرض الكفاية من العلم، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب."
(مقدمة، ج:1، ص:42، ط:دار الفكر - بيروت)
المبسوط للسرخسي میں ہے:
"(قال) وينبغي للقاضي أن يقدم النساء على حدة والرجال على حدة؛ لأن الناس يزدحمون في مجلسه، وفي اختلاط النساء مع الرجال عند الزحمة من الفتنة والقبح ما لا يخفى."
(كتاب أدب القاضي،ج:16، ص:80، ط: دار المعرفة بيروت)
الفتاوی البزازیة علی ہامش الهندیة میں ہے:
"ولايأذن بالخروج إلي المجلس الذي يجتمع فيه الرجال و النساء وفيه من المنكرات."
(كتاب النكاح، الفصل الثامن عشر في الحظر والإباحة،ج:4، ص:157، ط: رشيدية)
حجة اللہ البالغة میں ہے:
"اعلم أنه لما كان الرجال يهيجهم النظر إلى النساء على عشقهن والتوله بهن، ويفعل بالنساء مثل ذلك، وكان كثيرا ما يكون ذلك سببا لأن يبتغي قضاء الشهوة منهن على غير السنة الراشدة، كإتباع من هي في عصمة غيره، أو بلا نكاح، أو غير اعتبار كفاءة - والذي شوهد في هذا الباب يغني عما سطر في الدفاتر - اقتضت الحكمة أن يسد هذا الباب."
(أبواب تدبير المنزل، ذكر العورات، ج:2، ص:193، ط: دار الجيل بيروت)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
"الخلوة: فلا يحل للرجل والمرأة إذا كانا أجنبيين أن يخلو أحدهما بالآخر؛ لما ورد في حديث البخاري مرفوعا:" إياكم والدخول على النساء"، وحديثه الآخر:" لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم."
(حرف الألف، الخلوة، ج:2، ص:55، ط: وزارة الأوقاف، كويت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608100909
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن