بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مکتب کو وقف شدہ بالائی منزل سے نچلی منزل میں منتقل کرنے اور وقف شدہ بالائی منزل میں رہائش اختیار کرنے کا حکم


سوال

ایک صاحب ایک مکان کے مالک تھے، جس میں نچلی منزل میں وہ خود رہائش پذیر تھے، جب کہ اوپر والی منزل انہوں نے اپنی زندگی ہی میں مختلف دینی امور کے لیے  میں وقف کردی تھی اور اس کے لیے تمام قانونی تقاضوں کو بھی پورا کرلیا تھا۔ مذکورہ جگہ میں گزشتہ چار سال سے رمضان المبارک میں تراویح اور بقیہ ایام میں قرآنِ کرین کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے، اب  ان صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے ورثاء  واقف کی طرف سے مقرّر کردہ متولی سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ اپنا مکتب نچلی منزل میں منتقل کرلیں، کیوں کہ ہم اوپر والی منزل میں منتقل ہوکر اس گھر کو مزید تعمیر کرنا اور اپنے استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس  وقف کی گئی جگہ کو تبدیل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز ایک بات یہ بھی ہے کہ اس وقف شدہ جگہ پر مخیر حضرات کی طرف سے ضروریات اور آرائش و زیبائش کی مد میں تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں، اگر مکتب کو نچلی منزل میں منتقل کیا جائے گا تو ان اخراجات کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر کوئی جگہ کسی بھی مقصد کے لیے وقف کردی جائے ،تو وہ جگہ واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، وقف مکمل ہونے کے بعد   اس کو فروخت کرنا  ،اس میں کسی قسم کا ردوبدل  کرنا، کسی اور استعمال میں لانا یا وقف سے رجوع کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح وقف مکمل ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں ردوبدل کرنا جائز نہیں، ہاں اگر اس نے وقف کرتے ہوئے ضرورت کے وقت وقف کی جہت تبدیل کرنے کی شرط لگائی تھی تو اب وہ جہتِ وقف میں تبدیلی کرسکتا ہے،  ورنہ نہیں ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر  مرحوم  نے واقعتًا  اپنے مکان کی بالائی منزل اپنی زندگی ہی میں مکتب اور دیگر دینی کاموں کے لیے باقاعدہ وقف کردی تھی اور تبدیلی کی کوئی شرط نہیں لگائی تھی تو اب اس وقف شدہ منزل کو تبدیل کرنا اور اس منزل کو مکتب اور دینی کاموں کے علاوہ کسی بھی ذاتی مقصد (مثلا رہائش وغیرہ) کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، لہٰذا مرحوم کے ورثا کا یہ مطالبہ (کہ مکتب کو وقف شدہ منزل سے نچلی منزل میں منتقل کر دیا جائے تاکہ ورثا وقف شدہ منزل کو رہائشی مقصد کے لیے استعمال کرسکیں)  شرعًا جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما."

(كتاب الوقف، الفصل الأول في تعريف الوقف ... الخ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه. وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف ،الفصل الثالث، حکم الوقف، ج:10، ص7617، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌الرجوع ‌عن ‌الوقف."

(كتاب الوقف، مطلب في إقالة المتولي عقد الإجارة، ج:4،ص:456،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:433، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"مطلب مراعاة غرض ‌الواقفين واجبة."

(کتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، ج:4، ص:445، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً و وقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية."

(کتاب الوقف، الباب الثانی فیما یجوز وقفه، ج:2، ص:362، ط: رشیدیة)

وفیه أیضاً:

"ولو کان الوقف مرسلًا لم یذکر فیه شرط الاستبدال لم یکن له أن یبیعھا ویستبدل لھا و إن کانت أرض الوقف سبخة لاینتفع بھا."

(کتاب الوقف، فصل في وقف المشاع، الباب الرابع فيما يتعلق بالشرط في الوقف، ج:2، ص:401، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں