بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مال تجارت اور ایڈوانس وغیرہ کی رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں 2021 سے میرے پاس کچھ ا سٹاک جمع ہونا اسٹارٹ ہوا جو بیچنے کے لیے ہے جس کی قیمت خرید 225000 ہے اور قرض 4000 ہے مکان کا ایڈوانس 30000 دیا ہوا ہے کلائنٹ کے پاس کم و بیش 70000 کی رقم ہے جو مل سکتی ہے رکی ہوئی ہے اور ماہانہ آمدنی کوئی مخصوص نہیں ہیں کبھی 30 ہزار کبھی 40 ہزار تو کبھی 50 ہزار تو زکوۃ واجب الاداءکتنی ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ مال تجارت کی زکوۃ کا حساب لگاتے وقت اس مال کی قیمت فروخت کے اعتبار سے زکوۃ نکالی جاتی ہے قیمت خرید کے اعتبار سے نہیں لہذا صورت مسئولہ میں سائل پر جو چار ہزار روپے قرض ہیں اس کو منہا کر کےمال تجارت کی قیمت فروخت کے اعتبار سے ڈھائی فیصد زکوۃ کی ادائیگی ضروری ہےاور   جو رقم کلائنٹ کے پاس ہے یا ایڈوانس میں دی ہے تو اس کی زکوۃ  بھی لازم ہے البتہ اس کی فوری زکوۃ لازم نہیں  بلکہ وصول ہونے کے بعد بھی زکوۃ ادا کی جاسکتی ہے تاہم زکوۃ کا حساب لگاتے وقت اگر ان دونوں قسموں کی رقوم کی بھی زکوۃ ادا کر دی تو یہ بہتر ہے  ۔  

در المختار میں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح."

(کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃ الغنم جلد ۲ ص : ۲۸۶ ط : دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية."

(کتاب الزکا ۃ ، الباب الثالث فی زکاۃ الذهب و الفضة والعروض جلد ۱ص : ۱۷۹ ط : دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم.

(قوله: عند قبض أربعين درهما) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لا تجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج فكذلك لا يجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج.

وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين."

(کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃ المال جلد ۲ ص : ۳۰۵ ط : دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309101266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں