بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ حرام سے تعمیر شدہ مکان دوکان کا کرایہ مسجد میں استعمال کرنے کا حکم


سوال

مسجد والوں نے حرام مال سے ( جس کاحرام ہوناخودصاحبِ مال نے ظاہر کردیا تھا، اس کے باوجود ) مسجد کی زمین میں ایک دوکان و کمرہ تعمیر کردیا تھا اور اب اس کا کرایہ بھی مسجد کے  لیے وصول کرتے ہیں تو اس دوکان ومکان اور اس کے کرایہ کے متعلق کیا حکم ہے ؟   

 

جواب

واضح رہے کہ  حرام مال  ذاتی طور پر بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اور مسجد  تو اللہ تعالیٰ کا گھر ہے،  اس میں تو کسی بھی طرح مالِ حرام استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہے؛ لہٰذا بصورتِ مسئولہ حرام  مال کو  مسجد کے لیے دکان یا کمرے کی تعمیر میں استعمال کرنا بھی جائز نہیں تھا، اور اب اس سے کرایہ حاصل کرکے  استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ مذکورہ مال مالک متعین ہونےکی صورت میں ان ہی کو یا ان کے ورثاء کو لوٹانا ضروری ہے، البتہ اگر مذکورہ دوکان ومکان میں لگی ہوئی رقم کے بقدر رقم اس کے مالک کو لوٹادی جائے تو  اس کے بعد  مذکورہ دوکان/ مکان سے حاصل ہونے  والے کرائے  کا مسجد میں استعمال   جائز ہوگا۔

المدارک علی ہامش تفسیر الخازن  میں ہے:

"کلّ مسجد بنی مباهاۃ، اور سمعۃ، او لغرض سویٰ ابتغاء وجہ اللہ، او بمال غیرطیب، فھو لاحق بمسجد الضرار."

(ج:2، ص:281، ط:حافظ کتب خانہ)

فتاوی عالمگیری (الفتاوی الہندیۃ)   میں ہے:

"إن کان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية و السبيل في المعاصي ردّها و ذلك هاهنا بردّ المأخوذ إن تمكّن من ردّه بأن عرف صاحبه و بالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لايصل إليه عين ماله."

(کتاب الکراهية، الباب الخامس عشر في کسب الحرام، ج:5، ص:349، ط:مکتبة حقانیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144212202048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں